• صارفین کی تعداد :
  • 6344
  • 1/20/2008
  • تاريخ :

امام زین العابدین (‏ع) کے اخلاق وکمالات

یا علی بن الحسین

مشاغل زندگی

 واقعہ کربلا کے بعد 43برس امام العابدین علیہ السّلام نے انتھائی ناگوار حالات میں بڑے صبروضبط اور استقلال سے گزارے۔ اس تمام مدت میں آپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے . ایک عبادت خدا دوسرے اپنے باپ   پر گریہ , یھی آپ   کی مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رھیں . آپ   جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ھیں دنیا میں اتنا کسی نے گریہ نھیں کیا , ھر ھر وقت پر آپ   کو حسین علیہ السّلام کی مصیبتیں یاد آتی تھیں . جب کھانا سامنے آتا تھا تب روتے تھے . جب پانی سامنے آتا تھا تب روتے تھے , حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد آجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رھتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گھبراجاتے تھے . اور انھیں آپ   کی زندگی کے لئے خطرہ محسوس ھونے لگتا تھا .ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آخر کب تک رویئے گا تو آپ نے فرمایا کہ یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے . ا یک فرزند غائب ھوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں جاتی رھیں . میرے سامنے تو اٹھارہ عزیزواقارب جن کے مثل ونظیر دنیا میں موجود نھیں، قتل ھوگئے ھیں . میں کیسے نہ روؤں .

 

 یوں تو یہ رونا بالکل فطری تاثرات کی تحریک سے تھا مگر اس کے ضمن میں نھایت پر امن طریقہ سے حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور شھادت کاتذکرہ زندہ رھا اور امام زین العابدین علیہ السّلام کے غیر معمولی گریہ کے چرچے کے ساتھ  شھادت حسین علیہ السّلام کے واقعات کاتذکرہ فطری طور سے لوگوں کی زبانوں پر آتا رھا جو دوسری صورت میں اس وقت حکومت ُ وقت کے مصالح کے خلاف ھونے کی بنا پر ممنوع قرار پاجاتا .

 

دوسری مرتبہ گرفتاری

  اتنی پر امن زندگی کے باوجود حکومت شام کو اپنے مقاصد میں حضرت علیہ السّلام کی ذات سے نقصان پھنچنے کااندیشہ ھوا ابن مروان نے اپنی حکومت کے زمانے میں آپ   کو گرفتار کراکے مدینہ سے شام کی طرف بلوایا . اور دوتین دن آپ   دمشق میں قید رھے مگر خدا کی قدرت تھی اور آپ   کی روحانیت کااعجاز جس سے عبدالملک خود پشیمان ھوا اور مجبوراً حضرت زین العابدین علیہ السلام کو مدینہ واپس ھوجانے دیا .

 

اخلاق وکمالات

  پیغمبر خدا کی مبارک نسل کی یہ خصوصیت تھی کہ بارہ افرد لگاتار ایک ھی طرح کے انسانی کمالات اور بھترین اخلاق واوصاف کے حامل ھوتے رھے جن میں سے ھر ایک اپنے  وقت میں نوعِ انسانی کے لئے بھتر ین نمونہ تھا، چنانچہ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی سیّد سجاد علیہ السّلام تھے جو اخلاق واوصاف میں اپنے بزرگوں کی یاد گار تھے . اگر ایک طرف صبر وبرداشت کا جو ھر وہ تھا جو کربلا کے آئینہ میں نظر ایا تو دوسری طرف حلم اور عفو کی صفت آپ   کی انتھا درجہ پر تھی . آپ نے ان موقعوں پر اپنے خلاف سخت کلامی کرنے والوں سے جس طرح گفتگو فرمائی ھے اس سے صاف ظاھر ھے کہ آپ کا حلم اس طرح نہ تھا جیسے کوئی کمزور نفس والا انسان ڈر کر اپنے کو مجبور سمجھ کر تحمل سے کام لے بلکہ آپ   عفو اور درگزر کی فضیلت پر زور دیتے ھوئے اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرتے تھے . ایک شخص نے بڑی سخت کلامی کی اور بھت سے غلط الفاظ آپ کے لیئے استعمال کیے .

 

حضرت علیہ السّلام نے فرمایا , جو کچہ تم نے کھا اگر وہ صحیح ھے تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر غلط ھے تو خدا تمھیں معاف کر دے . اس بلند اخلاقی کے مظاھرے کاایسا اثر پڑا کہ مخالف نے سر جھکا دیا اور کھا حقیقت یہ ھے کہ جو کچہ میں نے کھا وہ غلط ھی تھا۔ ایسے ھی دوسرے موقع پرا یک شخص نے آپ   کی شان میں بھت ھی نازیبا لفظ استعمال کیا . حضرت نے اس طرح بے توجھی فرمائی کہ جیسے سنا ھی نھیں، اس نے پکار کے کھا کہ میں آپ   کو کھہ رھا ھوں . یہ اشارہ تھا  اس حکم قران کی طرف کہ خذالعفووامربالمعروف واعرض عن الجاھلین یعنی عفو کو اختیار کرو اچھے کاموں کی ھدایت کرو اور جاھلوں سے بے توجھی اختیار کرو .

 

 ھشام ابن اسماعیل ایک شخص تھا جس سے حضرت علیہ السّلام کی نسبت کچھ ناگوار باتیں سرزد ھوئیں تھیں، یہ خبر بنی امیہ کےنیک بادشاہ عمر بن عبدالعزیز تک پھنچی . اسنے حضرت کو لکھا کہ میں اس شخص کو سزا دوں گا .آپ  نے فرمایا کہ میں نھیں چاھتا کہ میری وجہ سے اس کو کوئی نقصان پھنچے .

 

 آپ کی فیاضی اور خدمت خلق کاجذبہ ایسا تھا کہ راتوں کو غلہ اور روٹیاں اپنی پشت پر رکہ کر غریبوں کے گھروں پر لے جاتے تھے اور تقسیم کرتے تھے . بھت سے لوگوں کو خبر بھی نہ ھوتی کہ وہ کھاں سے پاتے ھیں اور کون ان تک پھنچاتا ھے جب حضرت کی وفات ھوئی اس وقت انھیں پتہ چلا کہ یہ امام زین العابدین علیہ السّلام تھے . عمل کی ان خوبیوں کے ساتھ  علمی کمال بھی آپ   کاایسا تھا جو دشمنوں کو بھی سرجھکانے پر مجبور کرتا تھا اور ان کو اقرار تھا کہ آپ   کے زمانے میں فقہ اور علم دین کا کوئی عالم آپ   سے بڑھ کر نھیں . ان تمام ذاتی بلندیوں کے ساتھ  آپ  دنیا کو یہ سبق بھی دیتے تھے کہ بلند خاندان سے ھونے پر ناز نھیں کرنا چاھیے .