• صارفین کی تعداد :
  • 6379
  • 1/20/2008
  • تاريخ :

امام حسن، پیغمبر اسلام کی نظرمیں

 

یا امام حسن مجتبی

    یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن اسلام پیغمبراسلام (ص)کے نواسے تھے لیکن قرآن نے انہیں فرزندرسول کادرجہ دیاہے اوراپنے دامن میں جابجاآپ کے تذکرہ کوجگہ دی ہے خودسرورکائنات نے بے شماراحادیث آپ کے متعلق ارشادفرمایا ہے:

 

  ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایاکہ میں حسنین کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔

 

    ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کواورایک کندھے پرامام حسین کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تھے اورحسنین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردیا

(اصابہ جلد ۲ ص ۱۲) ۔

 

    ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگاہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کرانہیں ڈاڈھی سے کھیلتے دیکھا

(نورالابصارص ۱۱۹) ۔

 

     ایک دن سرورکائنات امام حسن کوکاندھے پرسوارکئے ہوئے کہیں لیے جارہے تھے ایک صحابی نے کہاکہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدراچھی ہے یہ سن کرآنحضرت نے فرمایایہ کہوکہ کس قدراچھاسوارہے

(اسدالغابةجلد ۳ ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)۔

 

          امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خداامام حسن کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرمارہے تھے خدایامیں اسے دوست رکھتاہوں توبھی اس سے محبت کر ۔

 

     حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت پڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آگئے اوروہ دوڑکرپشت رسول پرسوارہوگئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپ سے اس کاتذکرہ کیاگیاتوفرمایایہ میراگل امیدہے“۔” ابنی ہذا سید“  یہ میرابیٹا سیدہے اوردیکھویہ عنقریب دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔

 

     امام نسائی عبداللہ ابن شدادسے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نمازمیں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تواتناطول دیاکہ میں یہ سمجھنے لگاکہ شایدآپ پروحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نمازپرآپ سے اس کاذکرکیاگیا توفرمایاکہ میرافرزندمیری پشت پرآگیاتھا میں نے یہ نہ چاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں،جب تک کہ وہ خودنہ اترجائے، اس لیے سجدہ کوطول دیناپڑا۔

 

    حکیم ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنین آگئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا

(مطالب السؤل ص ۲۲۳) ۔