• صارفین کی تعداد :
  • 5064
  • 6/11/2008
  • تاريخ :

صادق ہدایت

صادق هدايت

فارسی ادب کے متعلق بات کرتے ہوۓ جب افسانہ نگاری کا ذکر آتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں بہت سے نام گردش کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر صادق ہدایت،بزرگ علوی،محمد حجازی،علی دشتی،جلال آل احمد،حسین قلی مستعان، صادق چوبق اور نوری وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن ان سب میں جو شہرت صادق ہدایت کو نصیب ہوئی شاید ہی کسی افسانہ نگار کے مقدر میں آئی ہو ۔

صادق ہدایت نے 7 فروری 1903  عیسوی کو تہران کے ایک معزز گھرانے میں جنم لیا ۔ آپ کے والد کا نام ہدایت قلی تھا جو اعتصادالملک کے نام سے   مشہور تھے ۔ اتفاق سے صادق ہدایت جس گھرانے میں پیدا ہو‎ۓ وہ ادبی لحاظ سے پہلے ہی معروف تھا ۔ پس فارسی ادب سے ہمدردی اور محبت رکھنے والا دل سینے میں اور خون رگوں میں لۓ ہوۓ پیدا ہوۓ ۔ یہ سب آپ کو اپنے دادا سے وراثت میں ملا جو انیسویں صدی عیسوی کے نامور اہل قلم تھے ۔ ان کا نام رضا قلی تھا جو "" مجمع لصفحاء "" اور"" ریاض العارفین""   کے مصنف بھی ہیں ۔

صادق ہدایت نے اپنی ابتدائی تعلیم "" دبیرستان فرانسوی "" میں حاصل کی  اور پھر اعلی تعلیم کی غرض سے انہوں نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ پس انجینرنگ کی اعلی تعلیم کے لیۓ پہلے انہوں نے بیلجیم اور پھر فرانس کا رخ کیا ۔

صادق ہدایت نے ادبی دنیا میں پہلا قدم  "" موت  ""  نامی   ایک مقالہ لکھ کر کیا ۔ فرانس میں قیام کے دوران ان کو فرانسیسی ادب سے گہرا لگاؤ پیدا ہو گیا اور انہوں نے فرانسیسی زبان میں  "" جادوگری در ایران "" کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا۔ فرانس ہی میں انہیں افسانہ نگاری کا شوق پیدا ہوا اور یوں 1925 ء سے 1929ء عیسوی تک کا عرصہ فرانس میں گزارنے کے بعد 1930 ء میں واپس ایران آ گۓ ۔ ایران پہنچ کر انہوں نے چند دوسرے ادبی ذوق کے حامل افراد کے ساتھ مل کر ایک ادبی گروہ  تشکیل دیا ۔ یہ گروہ "" ربعہ "" کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ انہوں نے "" بانک ملی "" میں ملازمت بھی اختیار کر لی ۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی  پہچان "" زندہ بگور "" سے ہوئی ۔

1932 ء میں انہوں نے ہندوستان کا  سفر کیا اور وہاں ایک سال قیام کیا ۔ اس ایک سال میں انہوں نے پہلوی زبان سیکھی اور اسی دوران اپنا مشہور ناول "" بوف کور "" تحریر کیا ۔ ایک مختصر سفر تاشقند کی طرف بھی کیا اور پھر زندگی کا باقی حصّہ تہران میں مترجم کی حیثیت سے گزارنے لگے ۔ انہوں نے مجموعی طور پر چالیس افسانے تحریر کیے ۔

دسمبر 1950 ء میں ایک بار پھر فرانس کا سفر کیا اور وہیں پر وفات پائی ۔ ان کو پیرس کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا ۔

صادق هدايت كي قبر پيڑلاشز،پيريس

تصانیف و تالیفات

افسانے اور ناول

سگ ولگرد، زندہ بگور ، سہ قطرہ خون، علویہ خانم ، سایہ روشن ، بوف کور ، ولنگاری ،  حاجی آقا  وغیرہ  وغیرہ ۔

ڈرامے

پروین دختر سامان، مازیار ، افسانہ آفرینش

سفرنامے

اصفہان نصف جہان ، در جادہ نمناک

تحقیقی اور طنزآمیز مقالے اور کتابیں

انسان و حیوان، ترانہ ھای خیام ، پیام کافکا ، چند نکتہ دربارہ ویس و رامین ،خط پہلوی و الفبای صوتی، فواید گیاہ خوری، اوسانہ، وغ وغ ساھاب ، نیرنگستان۔

تراجم :

صادق ہدایت نے پہلوی  زبان سے چند ترجمے انجام دیۓ ۔

گجستہ ابالیش ، کارنامہ ارد شیر پاپکان ،گزارش گمان شکن وغیرہ وغیرہ

فرانسیسی سے فارسی میں کۓ جانے والے تراجم مندرجہ  ذیل ہیں ۔

""دیوار"" از زان پل سارٹر ، مسخ از فرانٹس کافکا ، مرداب حبشہ از گاستن ، کلاغ پیر، تمشگ تیغ دار

خطوط

صادق ہدایت کے خطوط بنام مجتبی مینوی ، بنام حسن شہید نورایی ، بنام محمد علی جمالزادہ ، بنام فریدون توللی ، بنام انجوی شیرازی ، بنام تقی  رضوی ، بنام یان ریپکا

                               تحریر و پیشکش :   شعبہ تحریرو پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

 حضرت آیت اﷲ العظمیٰ خامنہ ای " دام ظلہ " کی مختصر سوانح حیات

 شہید ڈاکٹر محمد حسین بہشتی

  زندگی نامہ بینظیر بھٹو