• صارفین کی تعداد :
  • 5746
  • 6/29/2008
  • تاريخ :

اشکانیان 

اشکانیان-طاق بستان

 پارت کے طوایف نے ارشک کی رہبری میں سلوکی سرداروں کے خلاف جوقیام کیا وہ اصل میں ایرانیوں کا مغرب کے مقابلہ میں رد عمل تھا جس کے ذریعہ ایران اورایران کے لوگوں کو ایک نئی حیات ملی خاندان ارشك كا اصل مقصد استوا (تقريبا موجوده قوچان) كے  علاقه پر قبضه كرنا تها ارشک نے یونانی حاکم پر استوا کے علاقہ میں شورش بپا کی اور ۲۳۸ ق م میں پارت اورپھر گرگان کو سلوکیوں کے ہاتھ سے لے لیا، اس کے بعد اس کا چھوٹا بھائی ”تیرداد “اس کا جانشین ہوا،اور اس نے اپنے بھائی کے احترام میں اپنے آپ کو ارشک دوم کہلایا جب ہی سے اس خاندان کے دوسرے بادشاہوں نے اپنے آپ کو ارشک کے نام سے موسوم کیا اور اسی وجہ سے اس کے جانشین ارشکان یا اشکانیان کہلائے۔

 

  مھرداد اول کے اشکانی(ح۱۷۱ق م) تخت پر بیٹھنے سے اس سلسلہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ پیش آیا،اس نے پہلے باختر(بلخ) کے علاقہ کو فتح کیا، ماد اور ہمدان (۱۱۴۸۔یا۱۴۷ق م) کو فتح کرنے کے بعد بابل اور سلوکیہ کو بھی اپنی سرزمین میں داخل کرلیا (۱۴۱ق م) پھر ایلام کے کچھ حصہ کو بھی فتح کیا اور شوش میں اپنے نام کا سکہ جاری کیا، کچھ دنوں بعد پارس نے اس کی حکومت کو قبول کرلیا اور پورا ایلام اس کی حکومت میں چلا گیا۔ مھرداد نے وہاں کے سکوں پر اپنے آپ کو ”شاہ بزرگ“ (شہنشاہ) لکھوایا، جس وقت اس کا انتقال ہوا (۱۳۸ ق م) حکومت اشکانیان چھوٹی سی حکومت سے ایک بہت بڑی حکومت میں بدل چکی تھی۔

 

 مھرداد اول کے بعد اشکانیان کی حکومت کو مشرق میں شکاھا کی دھمکیوں اور تجاوزات سے سامنا کرنا پڑا، لیکن ان سب پریشانیوں کے باوجود بھی سلوکیوں کے آخری بادشاہ فرھاد دوم کو ایران سے نکال دیا۔(۱۲۹ق م)اس کے جانشین مھرداد دوم نے حکومت کی داخلی اور خارجی پریشانیوں کو دور کیا، اس نے بابل(۱۲۱یا۱۲۰) پر قبضہ کرنے کے بعد ارمنستان پر شورش کی اور بین النہرین کے درمیان،دورا اور پوس پر  بھی قبضہ کر لیا (ح ۱۱۳ق م) پھر شکاھا کے غائلہ فرقہ کو ختم کرنے کی غرض سے مشرق کی طرف لشکر کشی کی، ہرات کے علاقہ کو دوبارہ واپس لیا اور سیستان کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا ظاہرا اس زمانے میں دریای خزر کے  مشرق کا سرسبز وسیع میدان بھی مھرداد  دوم کی حکومت میں تھا، مھرداد دوم کے زمانے میں ایران اور چین نے  باہمی تعلقات بڑھائے اوراپنے اپنے سفیر بھی بھیجے، وہ ھخامنشیان کو ”شاہ شاہان ”(شہنشاہ) کہتا تھا، اس کی حکومت کے زمانے میں دفاتر اور عدالت کے انتظامات میں بھی اصلاح ہوئی اور ملک کے جغرافیائی نقشہ کو عام کردیا۔

 

 اشکانیان نے جب اپنی حکومت کو وسیع کیا تو پڑوسی ملک روم سے ان دونوں ملکوں میں فرہاد سوم کے زمانے میں رومی سردارسے اختلاف پیدا ہوگیا لیکن بات جنگ تک پہنچ گئی کیونکہ ارد اول کے زمانے میں رومی سردار کراسوس نے اشکانیان کی سرزمین پر حملہ کیا جس کی وجہ سے دونوں حکومتوں میں جنگ ہوئی اورحران (۳۵ق م)کی جنگ میں کراسوس کے قتل ہونے سے اشکانیان کامیاب ہوگئے۔ کچھ دنوں کے بعد فرھاد چہارم کے زمانے میں بھی رومی سردار مارک آنتونی اور سوریہ کے حاکم نے اشکانیان کی سرزمین پر حملہ کیا (۳۶ق م) لیکن اور بہت سے لوگوں کے قتل ہونے کے بعد ان لوگوں نے عقب نشینی اختیار کرلی، اشکانیوں کا آخری بادشاہ، بلاش اول تھا جس نے ارمنستان ایران میں سب سے زیادہ حکومت کی اس کے مرنے سے ایران میں داخلی اختلاف بڑھ گئے اور رومی سرداروں نے پارت کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی غرض سےلشکر کچی کی، جس میں اشکانیان کا پائتخت تیسفون بھی رومیوں کے ہاتھوں میں پہنچ گیا لیکن پھر رومی حملہ کرنے والوں کو زیادہ توفیق حاصل نہیں ہوسکی، اشکانیوں کے آخری بادشاہ اردوان پنجم (یا دوسری روایت کے مطابق اردوان چہارم) نے روم کی طاقت کو ختم  ہی نہیں بلکہ ان کو خسارہ کی تلافی کیلئے بھی مجبور کیا (۲۱۷م) اردشیر بابکان اپنے داخلی دشمن کے سامنے کھڑے ہونے کی تاب نہ لاسکا اور ان دونوں کے درمیان ہرمزدگان کے میدان میں جو جنگ ہوئی اس میں مارا گیا (۲۲۴م) اور اشکانی کی بادشاہت یہیں پر ختم ہوگئی۔

                               اسلامی ثقافت و روابط  سینٹر


متعلقہ تحریریں:

 سلوکیان