• صارفین کی تعداد :
  • 6723
  • 6/30/2008
  • تاريخ :

امام زین العابدین کی عظیم شخصیت

امام سجاد-ع-

امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات اقدس کو موضوع سخن قرار دینا اور آپ کی سیرت طیبہ پر قلم اٹھانا نہایت ہی دشوار امر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم امام کی معرفت و آشنائی سے متعلق مآخذ و مصادر بہت ہی ناقص اور نامساعد ہیں ۔

اکثر محققوں اور سیرت نگاروں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ عظیم ہستی محض ایک گوشہ نشین عابد و زاہد جیسی زندگی گزارتی رہی جس کو سیاست میں ذرہ برابر دلچسپی اور دخل نہ تھا ۔ بعض تاریخ نویسوں او ر سیرت نگاروں نے تو اس چیز کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور وہ حضرات جنھوں نے صاف صاف وضاحت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی انھوں نے بھی امام علیہ السلام کی زندگی سے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس سے مختلف نہیں ہیں چنانچہ حضرت (ع) کو دیئے جانے والے القاب اور حضرت (ع) کے سلسلہ میں استعمال کی جانے والی تعبیرات سے یہ بات بہ آسانی درک کی جا سکتی ہے ۔

بعض لوگوں نے اس عظیم ہستی کو ”بیمار “کے لقب سے یاد کیا ہے جب کہ آپ کی بیماری واقعہ عاشورہ کے ان ہی چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد اس کا سلسلہ باقی نہ رہا ،تقریبا سب ہی لوگ اپنی عمر کے ایک حصہ میں بیمار پڑجاتے ہیں ،اگرچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی اس بیماری میں الٰہی حکمت و مصلحت بھی کارفرما تھی دراصل پروردگارعالم کو ان دنوں خدا کی راہ میں جہاد و دفاع کی ذمہ داری ،آپ پر سے اٹھا لینا مقصود تھا تاکہ آئندہ (شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد )امانت و امامت کا عظیم بار اپنے کاندھوں پر لے سکیں اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد چونتیس یا پینتیس برس تک زندہ رہ کر نہایت ہی سخت اور پر آشوب دور طے کرسکیں ۔

اگر آپ امام زین العابدین (ع) کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو ہمارے دیگر ائمہ کی طرح یہاں بھی ایک سے ایک نئے نئے قابل توجہ حادثات کا ایک سلسلہ نظر آئے گا لیکن ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ان تمام واقعات کو اگر یکجا کر بھی لیں تب بھی امام علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا سمجھ لینا آپ کے لئے آسان نہ ہو گا ۔

 

امام سجاد-ع-

کسی کی سیرت کو صحیح معنوں میں سمجھنا یا سمجھانا اسی وقت ممکن ہے جب اس شخصیت کے اصول اور بنیادی موقف کو اچھی طرح درک کرلیا جائے اور پھر اس کی روشنی میں اس کی جزئیات زندگی سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ اصل میں جب بنیادی موقف کی وضاحت ہو جاتی ہے جزئیات بھی بے زبان نہیں رہتے ،خود بخود معنی پیدا کرلیتے ہیں ۔اس کے برخلاف اگر اصولی موقف ہم پر واضح نہیں ہو سکے ہیں یا کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں تو جزئی واقعات بھی یا تو بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر ان کو غلط معنی پہنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور یہ صرف امام زین العابدین (ع) یا ہمارے دیگر ائمہ طاہرین (ع) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اصول ہر شخص کی زندگی کے تجزیہ کے وقت پیش آسکتا ہے ۔

امام سجاد (ع) کے سلسلہ میں نمونہ کے طور پر ،محمد بن شہاب زہری کے نام حضرت (ع) کا خط پیش کیا جاسکتا ہے جو آپ کی زندگی کا ایک حادثہ ہے یہ وہ خط ہے جو خاندان نبوت و رسالت کی ایک عظیم فرد کی طرف سے اس دور کے مشہور و معروف دانشور کو لکھا گیا ہے اب اس سلسلہ میں مختلف انداز سے اظہار رائے کی گنجائش ہے ممکن ہے یہ خط کسی اساسی نوعیت کے حامل وسیع سیاسی مبارز کا ایک حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے برے کاموں سے روکنے کی ایک سیدھی سادی نصیحت یا محض ایک شخصیت کا دوسری شخصیت پر کیا جانے والا اسی قسم کا ایک اعتراض ہو جس قسم کے اعتراضات دو شخصیتوں یا کئی شخصیتوں کے مابین تاریخ میں کثرت سے نظر آتے ہیں ۔ ظاہر ہے دیگر حادثات و واقعات سے چشم پوشی کرکے صرف اس واقعہ سے کسی صحیح نتیجہ تک کبھی بھی نہیں پہنچا جاسکتا ۔میں اس نکتہ پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ان جزئی واقعات کو امام علیہ السلام کے اصولی وبنیادی موقف سے علیحدہ کرکے مطالعہ کرنا چاہیں تو امام سجاد  علیہ السلام کی سوانح زندگی ہم پر روشن نہیں ہوسکتی ۔ لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم امام علیہ السلام کے اصولی اور اساسی موقف سے آگاہی حاصل کریں ۔

چنانچہ ہماری سب سے پہلی بحث امام زین العابدین علیہ السلام کے بنیادی موقف سے متعلق ہے اور اس کے لئے خود امام علیہ السلام کی زندگی ،آپ کے کلمات نیز دیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت وزندگی سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بڑی ہی باریک بینی کے ساتھ نکات درک کرکے بحث کرنا ہوگی ۔

                                                                                   مہدی مشن ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

 حضرت امام زین العابدین علیہ السلام

 امام سجاد (ع) کی عبادت