• صارفین کی تعداد :
  • 4826
  • 9/3/2008
  • تاريخ :

قرآن پر اعتراضات کا جواب

قرآن مجید

قرآن مجيد کا بيان ہے کہ وہ واضح و فصيح عربى زبان ميں نازل ہوا ہے اور عرب دنيا کے سارے کمالات سے عارى فرض کیے جا سکتے ہيں ليکن اپنى زبان سے بہرحال واقف و باخبر تھے۔ ايسى حالت ميں يہ کيونکر ممکن ہے کہ نظم و نثر ہرقسم کے کلام کى ترتيب پر قادر ہوں اور تنہا قرآن ہى کے جواب لانے سے قاصر ہوں۔ معلوم يہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اس کلام کو قابل توجہ ہى نہيں سمجھا۔ يا قابل توجہ سمجھ کر جواب ديا تھا اور بعد ميں وہ جواب زمانہ کى دستبرد کا شکار ہو گيا اور آئندہ نسلوں تک نہيں پہونچ سکا۔

 

واضح سى بات ہے کہ اس اعتراض کے تين گوشے ہيں۔ پہلا رخ يہ ہے کہ عرب نثر و نظم پر قادر تھے تو قرآن کا جواب لانے پر بھى قادر رہے ہونگے يہ اور بات ہے کہ جواب نہيں لائے اور جواب نہ دينا کسى کلام کے لا جواب ہونے کى دليل نہيں ہے۔

اس اعتراض کا جواب يہ ہے کہ يہ بات دنيا کے ہر ادب ميں پائى جاتى ہے جہاں اہل زبان الگ الگ کلمات کى ترکيب پر مسلم طور پر قادر ہوتے ہيں ليکن کسى ايک کلام کا مثل لانے سے عاجز رہ جاتے ہيں۔ اردو کا کونسا اديب يا شاعر ہے جس نے نظم و نثر ميں اپنے ما فى الضمير کا اظہار نہ کيا ہو ليکن کيا کسى کى مرصع نثر ’طلسم ہوشربا‘ اور ’فسانہ عجائب‘ بن سکي۔ کوئى محمد حسين آزاد کى سى نثر لکھ سکا، کسى کى عبارت ميں ابو الکام آزاد کا جلال تحرير اور مير امن کى سادگى پيدا ہو سکي۔ کوئى شاعر اقبال کى فکر اور جوش کى گرج پيدا کرسکا، کسى کے يہاں غالب کا فلسفيانہ تغزل اور انيس کا شگفتہ مزاج ديکھنے ميں آيا۔ ذوق کا آہنگ اور مير کا ترنم اب بھى کانوں ميں رس گھول رہا ہے حالانکہ سب کے سب اسى زبان کے نثر نگار اور شاعر ہيں جس کے اديبوں کى فہرست مرتب کرنا دشوار ہے، اور يہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کلمات و فقرات پر قدرت اور ہے اور مرتب کلام پيش کردينے پر اختيار اور۔

 

اس مقام پر يہ تصور نہ کيا جائے کہ ايسى حالت ميں ديوان غالب اور مرثيہ انيس کو بھى معجزہ تسليم کرلينا چاہئے کہ ان کا جواب بھى اردو ادب ميں نہيں پيدا ہوسکا۔ اس لیے کہ ان ميں معجزہ کى بنيادي شرطوں کا فقدان پايا جاتا ہے معجزہ کى پہلى شرط يہ ہے کہ اسے دعوئے نبوت و امام کے ثبوت ميں ہونا چاہيے اور يہاں کسى شاعر نے منصب الہى کا دعوى نہيں کيا بلکہ حق و انصاف کى بات يہ ہے کہ اگر ايسا دعوى کر ديا ہوتا تو حکمت الہيہ کا فرض تھا کہ يہ قوت فکر سلب کرلے اور ايسا کوئى کلام منظر عام پر نہ آنے دے جو حق و باطل ميں التباس و اشتباہ کا سبب بن جائے اور طالبان حقيقت کى راہ ميں سنگ راہ واقع ہوجائے۔

 

دوسري اہم شرط يہ ہے کہ معجزہ کسى مشق و تمرين کا نتيجہ نہيں ہو سکتا وہ ايک غيبى امداد اور قدرتي تائيد ہے جو صرف اپنے نمائندوں کے ساتھ رکھى جاتى ہے اور بس۔ اور کھلى ہوئى بات ہے کہ ان تمام اديبوں اور شاعروں کا ابتدائى کلام ہمارے پيش نظر ہے يا ہميں اس کي اطلاع ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کا کمال فن مشق و مہارت کا نتيجہ تھا اور اس کو براہ راست غيبى امداد حاصل نہ تھى جبکہ معجزہ براہ راست غيبى ترجمانى ہى کا نام ہوتا ہے۔

اعتراض کا دوسرا گوشہ يہ ہے کہ عرب اس قرآن کا جواب لانے پر مکمل اختيار رکھتے تھے ليکن انہوں نے کوئى توجہ نہيں کي يا توجہ کى ليکن حالات نے جواب نہيں لکھنےء ديا اور مسلمانوں کو اقتدار و اختيار اس راہ ميں حائل ہو گيا۔

اس اعتراض کا تاريخى جواب يہ ہے کہ جواب لانے والوں نے توجہ دى اور جواب لانے کى کوشش بھى کى اور آخر ميں اسے ما فوق البشر کہہ کر اپنى عاجزى کا اقرار بھى کر ليا۔ اسلام و کفر کے درميان معرکہ آرائيوں کا انکار کيونکر کيا جاسکتا ہے اور اس حقيقت سے کيونکر چشم پوشى کى جا سکتى ہے کہ رسول اسلام کو جنگ و جدل اور تير و تلوار سے کہيں زيادہ آسان طريقہ يہى تھا کہ ان کے معجزہ کى حقيقت کو بے نقاب کر ديا جائے اور جس بنياد پر وہ اپنے نمائندہٴ الہى ہونے کا دعوى کرتے ہيں اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھينک ديا جائے ۔ ليکن ايسا کچھ نہيں ہوا اور جنگ کا ميدان گرم ہوتا رہا۔ جس کا مطلب ہى يہ ہے کہ دشمن آسان طرز جواب پر قادر نہيں تھا اور مجبوراً اسے جنگ و جدل کا راستہ اختيار کرنا پڑا تھا۔

 

قدرت کے بعد مسلمانوں کے جاہ و جلال کى بناء پر جواب ظاہر نہ کرنے کى بات انتہائى مضحکہ خيز ہے۔ مسلمانوں کا جاہ جلال اعجاز قرآن کے کامياب ہو جانے کا نتيجہ ہے اور رسول اسلام کا چيلنج اس عہد کا ہے جب آپ مکہ کى گليوں ميں پتھر کھا رہے تھے اور کانٹوں پر راستہ چل رہے تھے ۔ ايسے حالات ميں کس قدر آسان تھا کہ ان کے معجزہ کا جواب پيش کرکے ان کى دليل کو باطل کر ديا جاتا اور وہ جاہ جلال پيدا ہى نہ ہوسکتا جسے بعد کے حالات ميں خطرہ بتايا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بھى مسلمانوں کے خوف کى بات عجيب وغريب ہي ہے اس لیے کہ انھيں مسلمانوں کے عہد ميں اہل کتاب کي کتابيں محفوظ رہيں، انھيں مسلمانوں سے کفار نے طاقت آزمائياں کى ہيں پھر کيا وجہ ہے کہ کسى مقام پر مسلمانوں کا خوف غالب نہيں ہوا، اور صرف کتاب حکيم کا جواب لانے کے لیے يہ خوف آڑے آ گيا۔

اعتراض کا تيسرا رخ تاريخ کے ظلم اور اس کى خيانت سے متعلق ہے جہاں مدعى کا يہ خيال ہے کہ اہل عرب نے کتاب حکيم کا جواب پيش کرديا تھا ليکن زمانے کے حالات نے اسے تلف کر ديا اور وہ آج ہم تک نہ پہونچ سکا۔ ظاہر ہے کہ يہ رخ کسى جواب کا مستحق نہيں ہے اور نہ اس پر کوئى دليل قائم کى گئي ہے جسے باطل کرنے کا اہتمام کيا جاتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس توہّم نے جبر تاريخ کى روشنى ميں ايک اہم حقيقت کا پتہ دے ديا۔

قانون جبر تاريخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھى کسى دور ميں کوئى ايسا واقعہ پيش آيا ہے جس ميں زندہ و پايندہ رہنے کى صلاحيت اور دوام و استقرار کى استعداد پائى گئى ہے تو تاريخ نے تمام موانع کے على الرغم واقعہ کو زندہ رکھا ہے اور صفحہ ہستى سے مٹنے نہيں ديا ہے۔

 

اسلامي تاريخ ميں اس کا واضح ثبوت واقعہ کربلا ہے جس کے مٹانے کے لیے صديوں تک اسباب فراہم کیے گئے ہيں، حکومتوں نے زور صرف کيا ہے۔ اقتدار نے طاقت آزمائى کى ہے تخت و تاج کي بازى لگائى گئى ہے۔ اہل حق سے قيد خانوں کو آباد کيا گيا ہے باطل کو مکمل چھوٹ دے کر حق کے دہن پر قفل لگائے گئے ہيں ليکن اس کے با وجود اس کے سرمدى عناصر کى بنا پر تاريخ نے اسے زندہ رکھا ہے اور باطل کى ہواوٴں سے اس شمع کو بجھنے نہيں ديا۔

ايسے حالات ميں قرآن حکيم کے مقابلہ ميں پيش ہونے والا کلام اگر اتنا ہى جاندار ہوتا جتنا جاندار قرآن حکيم ہے تو تاريخ اسے بھى اسى طرح زندہ رکھتى جيسے اس نے اس کتاب کو زندہ رکھا ہے ليکن ايسا کچھ نہ ہوسکا اور قرآن زمانے کى تيز و تند ہواوٴں اور حکومتى خواہشات کے جھگڑوں کى زد پر اپنى پورى تابناکيوں کے ساتھ زندہ رہ گيا۔ اور اس کا مذموم جواب فنا کے گھاٹ اتر گيا، يا عدم کے پردہ ميں روپوش ہوگيا جو اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ قرآن ميں زندگى کے عناصر ہيں اور ان جوابات ميں ايسے عناصر نہ تھے۔

 

اس سے زيادہ واضح بات يہ ہے کہ بعض مختصر جوابى فقرات و کلمات اب بھى تاريخ ميں درج ہيں جو اس بات کا ثبوت ہيں کہ زمانے نے جوابات کى بقاء پر پابندى نہيں عائد کي تھى اور انھيں اپنى گود ميں اسى لیے محفوظ کر ليا تھا کہ آنے والا دور فيصلہ کرسکے کہ قرآن حکيم اور ان منتشر کلمات ميں کيا نسبت ہے اور کسے معجزہ کا درجہ ديا جا سکتا ہے۔

بعض انگور کو کھٹا کہہ دینے والے يہ بھى کہہ ديتے ہيں کہ قرآن مجيد ميں کوئى شوکت الفاظ، جذالت و سلاست اور روانى و آسانى نہ تھى يہ امتداد زمانہ اور کثرت استعماکل کا اثر ہے جو وہ اس قدر رواں دواں معلوم ہوتا ہے اور دنيائے اسلام اس کى سلاست و جذالت کا پرچار کر رہى ہے۔ اس کى طرح دوسرا کلام بھى صبح و شام تلاوت کيا جاتا تو اس ميں بھي وہى روانى ہوتى جو قرآن حکيم ميں پائي جاتى ہے۔ مگر افسوس کہ ايسا نہ ہوسکا اور ديگر بيانات و کلمات زمانے کى بے رخى کى نذر ہو گئے۔ ليکن يہ بات خود بھى ميرے دعوى کى ايک دليل ہے کہ دنيا نے قرآن حکيم کو اپنا اسے مرکز تلاوت قراٴت بنايا ليکن دوسرے کلمات کو اہميت نہيں دى اور اس کے طرز عمل نے فيصلہ کرديا کہ کونسا کلام گلے لگانے کے قابل ہے اور کونسا کلام نسياں کى نذر کر دينے کے لايق ہے۔

 

اس کے علاوہ اس اعتراض کى سب سے بڑى کمزورى يہ ہے کہ اس ميں کثرت استعمال کوسلامت و روانى اور انس ذہنى کا سبب قرار ديا گيا ہے حالانکہ فطرت بشر کا مسلّم فيصلہ ہے کہ کوئي بھى کلام کثرت تکرار سے اپنا اثر و لطف کھو بيٹھتا ہے اور لوگ اس کى طرف زيادہ توجہ نہيں کرتے۔ ايک قصيدہ ايک ايک وقت ميں نادر و ناياب معلوم ہوتا ہے ليکن دوسرے وقت ميں وہى قصيدہ انتہائى مہمل اور بے معنيٰ معلوم ہوتا ہے۔ صرف اس لیے کہ پہلے ابتدائى طور پر سنا تھا او ہر جديد ميں لذت ہوتى بھى ہے اور اب کئي مرتبہ سننے کے بعد سنا ہے اس لیے طبيعت اس کى طرف مائل نہيں ہوتى اور اسے وہ جذب و کشش حاصل نہيں ہے جو ابتدائى طور پر ہوا کرتى ہے۔

                                                قرآن الشیعہ ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

 دعوت مطالعہ