• صارفین کی تعداد :
  • 5945
  • 9/3/2008
  • تاريخ :

امام علی معلم عدالت

میزان

امام  کے خطبوں، خطوط ا وراپنے عمال نیزمددگاروں کو دئے گئے فرامین میں ہمیشہ رعایا کی ایک ایک فرد کیساتھ عدل سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ مالک اشترکے عہد نامے میں آیا ہے ۔(تمہاری نظرمیں سب سے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہئے جو زیادہ ترحق کی شاہراہ پرہو اس کا عدل عمومی ہو اوراس میں رعایا کی خوشنودی زیادہ سے زیادہ شامل ہو۔ اسی عہدنامہ کے ایک دوسرے حصے میں امام فرماتے ہیں۔ بلاشبہ حکام اور والیوں کی آنکھوں کا بہتریں نورملکی سطح پرعدالت کا قیام اورقوم کے دلوں کواپنی طرف جذب کرنا ہے اوررعایا کے دلوں کی سلامتی کے بغیران کی محبت ظاہرنہیں ہوسکتی اوران کی خیرخواہی اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے گرد حفاظت کیلے گھیرا ڈالے رہیں اوران کے اقتدارکو اپنے سرپربوجھ نہ سمجھے اوران کی حکومت کے خاتمے کیلئے گھڑیانہ گنیں لہذا(آپ )ان کی امیدوں میں وسعت رکھنا انہیں اچھے لفظوں سے سراہتے رہنا اوران میں سے اچھی کارکردگی رکھنے والوں کے کارناموں کا تذکرہ کرتے رہنا ۔ کیوں کہ ان کے اچھے کارناموں کا ذکر بہادروں کو جوش میں لاتا ہے اورپست ہمتوں کوابھارتا ہے انشأ۔۔۔۔

 

    اگرملک کے ذمہ دارافراد قوم کے سلسلے میں عدل کی روش اختیارکریں تو دل ان کی طرف راغب ہوں گے اوردلوں میں پڑنے والی گرہیں کھل جائیں گی یہ بات حکومت اورنظام اسلامی کے سربراہوں کے استحکام  اورپائیداری اورقوم سے ان کے محکم اوراستوار روابط کی ضامن ہے ،اوردوسری طرف اجتماعی عدالت کو بنیادی محوربنانا افراد قوم کی صلاحیتوں میں اضافہ اورقوم میں امید کی کرن کو اجاگر کرنے کا عامل ہے جب لوگ مطمئن ہوں گے کہ حق وعدالت کے علاوہ کسی اورچیزکو محور قرارنہیں دیا گیا ہے تواپنی تمناؤں اورآرزؤں تک پہنچنے کیلئے منطقی را ہ اختیارکریں گے جب کہ عدالت سے مایوسی انسان کوبدسلوکی ، رشوت خوری ،اورخلاف کاری پرمائل کردے گی۔  نتیجے میں حکومت کے کام بگڑنے لگیں گے اور معاشرے میں اخلاق اورجذبہ تحرک کو ضرب لگے گی۔ امام عالی مقام (ع نے اسلامی نظام کیلئے اس سرنوشت کو ایک پیش گوئی شد ہ دردناک حادثہ کے عنوان سے یاد کیا ہے آپ مدینے میں بیعت کے بعد اپنے ایک خطبے میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ  فرماتے ہیں: (اس ذات کی قسم جس نے رسول(ص) کوحق وصداقت کے ساتھ بھیجا تم اسطرح تہ وبالا کیے جاؤ گے کہ تمھارے ادنی اعلی ہوجائیں گے اورجو پیچھے رہتے تھے آگے بڑھ جائیں گے اورجو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔

 

امام کا نورانی کلام اس ظالمانہ دگر گونیوں کی عکاسی کررہا ہے جو قاعدوں؛ صلاحیتوں اورعدالت کی بنیاد پر نہیں بلکہ جوڑ توڑ اورتعلقات کی بنیاد پر معاشرہ پرتسلط ہو جاتی ہیں جو لوگ اسلام کا لیبل لگاۓ پھرتے ہیں وہ اسلام کے سچے سپوتوں سے بھی آگے بڑھتے جاتے ہیں اور جو اسلام کے حقیقی فرزند ہیں میدان سے باہر ہوجاتے ہیں اور یہ بہت بڑا المیہ ہے جو ایک اجتماعی انقلاب اورالہی تحریک کیلئے خطرناک ثابت ہوتا ہے،اسلامی تاریخ میں حکومتوں اورسلطنتوں کی روش اسی نہج اور انداز پر رہی کہ جس کے آثاراورنتایج کو ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔

 

میدان تاریخ میں امیرالمومنین علیہ السلام واحد سیاستداں ہے کہ جسکی حکومت کی بنیاد عدالت پرقایم تھی یہ حکومت اگرچہ مختصرتھی لیکن رہتی دنیا تک کیلیے نمونہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کا دا ئیرہ فقط انسانوں کی حد تک محدود نہیںتھا بلکہ اسکی شعاع انسانی زندگی کے دایرے سے نکل کر تمام حیوانات ؛جمادات تک کو گھیرے ہوۓ ہے؛امام عالی مقام (ع) کے چہار سالہ دور حکومت میں عدل کی کرنیں اسقدر پھیلی ہوی ہیں کہ تمام مخلوقات کو احاطہ کیے ہوۓ  ہے۔

 

ہاں امیرالمومنین وہ واحد ہستی ہے کہ جس نے عدالت کی راہ میں اپنی جان تک کی قربانی دیتے ہوۓ  جام شہادت نوش فرمایا اور ا ۤپکے سرسخت دشمن تک کو یہ کہنا پڑا( قُتِلَ عَلِیٌ لِشِدَّۃِعَدْلِہِ) یعنی علی(ع) شدت عدالت کی وجہ سے شہید ہوۓ ۔

آخر میں ہماری دعا ہے کہ ہمیں بھی اس امام عادل کی راہ پر گامزن ہوتے ہوۓ

اپنی زندگی میں عدالت کو اپنانے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ثم آ مین

                                             تحریر: محمد علی جوہری مدرسہ حجتیہ


متعلقہ تحریریں:

 عدل

 روز قیامت کیا ہوگا؟

 قرآن اور امامت علی ( ع)

 امامت کی تعریف

عقيدہ توحيد و عدل کا انساني معاشرہ پر اثر

صاحبان فضيلت كا اكرام