• صارفین کی تعداد :
  • 5274
  • 11/23/2008
  • تاريخ :

امام محمد تقی علیہ السلام

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

     آپ پانچویں برس میں تھے جب آپ کے والد بزرگوار امام رضا(ع) سلطنت عباسیہ کے ولی عھد ھو گئے اس کے معنی یہ ھیں کہ سن تمیز پر پھنچنے کے بعد ھی آپ نے آنکہ کھول کر وہ ماحول دیکھا جس میں اگر چاھا جاتا تو عیش و آرام میں کوئی کمی نہ رھتی مال و دولت قدموں سے لگا ھوا تھا اور تزک و احتشام آنکھوں کے سامنے تھا پھر باپ سے جدائی بھی تھی کیونکہ امام رضا(ع) خراسان میں تھے اور متعلقین تمام مدینہ منورہ میں تھے۔  اور پھر آپ کو آٹھواں ھی برس تھا کہ امام رضا(ع) نے دنیا ھی سے مفارقت فرمائی۔

 

      یہ وہ منزل ھے کہ جہاں ھمارے تاریخی کارخانہ تحلیل و توجیھہ کی تمام دوربینیں بیکار ھو جاتی ھیں۔  کسی دنیوی مکتب اور درسگاہ میں تو نہ ان کے آباؤاجداد کبھی گئے نہ یہ جاتے نظر آتے ھیں۔  ھاں ایک معصوم کے لئے معصوم بزرگوں کی تعلیم و تربیت ناقابل انکار ھے مگر یہاں معصوم باپ سے چار پانچ برس کی عمر میں جدائی ھو گئی۔  ایک توارثِ صفات رہ جاتا ھے مگر ھر ایک جانتا ھے کہ اس سے صلاحیت کا حصول ھوتا ھے۔

 

  فعلیت کے لئے پھر اسباب ظاھری کی ضرورت ھے۔  مگر یہ تاریخی واقعہ ھے کہ امام محمد تقی(ع) نے بچپن کی جتنی منزلیں اس کے بعد طے کیں وہ ابھی شباب کی سرحد تک بھی نہ تھیں کہ آپ کی سیرت بلند کی مثالیں اور علمی کمال کی تجلیاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے  آ ٓگئیں۔  یھاں تک کہ امام رضا(ع) کی وفات کے بعد ھی شاھی دربار میں اکابر علمائے وقت سے مباحثہ ھوا تو سب کو آپ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔

 

     اب یہ واقعہ کوئی صرف اعتقادی چیز بھی نھیں ھے بلکہ مسلم الثبوت طور پر تاریخ کا ایک جز ھے یھاں تک کہ اس مناظرہ کے بعد اسی محفل میں مامون نے اپنی لڑکی ام الفضل کو آپ کے حبالہ عقد میں دیا۔

  یہ  سیاست  مملکت  کا  ایک  نئی  قسم  کا  سنھرا  جال  تھا  جس  میں  امام  محمد  تقی(ع)  کی  کمسنی  کو دیکھتے ھوئے خلیفہ وقت کو کامیابی کی پوری توقع ھو سکتی تھی۔

 

 جیسا کہ رسالہ ”نویں امام“ (شائع کردہ امامیہ مشن) میں لکھا ھے۔

    ”بنی امیہ کے بادشاھوں کو آلِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا جتنا ان کے صفات سے۔  وہ ھمیشہ اس کے درپے رھتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ھے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ھوا ھے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے وہ گھبرا گھبرا کر مختلف تدبیریں کرتے تھے۔  امام حسین(ع) سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا(ع) کو ولی عھد بنانا اسی کا دوسرا طریقھ۔

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

    فقط ظاھری شکل میں ایک کا انداز معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں باتوں کی ایک تھی۔  جس طرح امام حسین(ع) نے بعیت نہ کی تو وہ شھید کر ڈالے گئے اسی طرح امام رضا(ع) ولی عھد ھونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ نہ چل سکے تو آپ کی شمع حیات کو زھر کے ذریعہ سے ھمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔

      اب مامون کے نقطھٴ نظر سے یہ موقع انتھائی قیمتی تھا کہ امام رضا(ع) کا جانشین آٹہ نو برس کا ایک بچہ ھے جو تین چاربرس پھلے ھی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا۔  حکومت وقت کی سیاسی سوجہ بوجہ کھہ رھی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقہ پر لانا نھایت آسان ھے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتھائی خطرناک،  قائم ھے ھمیشہ کے لئے ختم ھو جائے گا۔

 

  مامون امام رضا(ع) کی ولی عھدی کی مھم میں اپنی ناکامی کومایوسی کا سبب تصور نھیں کرتا تھا اس لئے کہ امام رضا(ع) کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی اس میں تبدیلی نھیں ھوئی تو یہ ضروری نھیں کہ امام محمد تقی(ع) آٹہ برس کے سن میں خاندان شھنشاھی کا جز بنا لئے جائیں تو وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار رھیں۔

   سوا ان لوگوں کے جو ان مخصوص افراد کے خدا داد کمالات کو جانتے تھے اس وقت کا ھر شخص یقیناً مامون کا ھم خیال ھو گا۔  مگر حضرت امام محمد تقی(ع) نے اپنے کردار سے ثابت کر دیا کہ جو ھستیاں عا م جذبات کی سطح سے بالاتر ھیں اور یہ بھی اسی قدرتی سانچے میں ڈھلے ھوئے ھیں جن کے افراد ھمیشہ معراج انسانیت کی نشاندھی کرتے آئے ھیں آپ نے شادی کے بعد محل شاھی میں قیام سے انکار فرمایا اور بغداد میں جب تک قیام رھا آپ ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام پذیر ھوئے اورپھر ایک سال کے بعد ھی مامون سے حجاز واپس لے جانے کی اجازت لے لی۔ 

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

 اور مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت کا کاشانہ گھرکی ملکہ کے دنیوی شاھزادی ھونے کے باوجود بیت الشرف امامت ھی رھا۔  قصر دنیا نہ بن سکا۔  ڈیوڑھی کا وھی انداز رھا جو اس کے پھلے تھا۔  نہ پھرے دار اورنہ کوئی خاص روک ٹوک۔  نہ تزک نہ احتشام۔  نہ اوقات ملاقات کی حد بندی۔  نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق۔  زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رھتی تھی جھاں مسلمان حضرت کے وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔  راویان حدیث احادیت دریافت کرتے تھے۔  طلاب علمی مسائل پوچھتے تھے اور علمی مشکلات کو حل کرتے تھے۔  چنانچہ شاھی سیاست کی شکست کا نتیجہ یہ تھا کہ آخر آپ کا بھی زھر سے اسی طرح خاتمہ کیا گیا جس طرح آپ کے بزرگوں کا اس سے پھلے کیا جاتا رھا تھا۔

 

www.ishraaq.net