• صارفین کی تعداد :
  • 4376
  • 12/23/2008
  • تاريخ :

حسین ابن علی

حسین ابن علی

اب‘ دل تھام کر‘ نگاہ اٹھایئے‘ علی کے سورما بیٹے اور محمد کے لہولہان نواسے‘ حسین کی جانب جو‘ گریاں تاریخ کے سینے کا ناسور اور گزراں وقت کی پیشانی کا نور ہے۔

وہ حسین جس کے نظام انفاس کی اطمینان آمیز ہمواری کی زد پر میدان کربلا کی باد سموم کا دم ٹوٹ گیا تھا ۔ جس کے لبوں کی خشکی دیکھ کر فرات کی موجیں آب آب ہو کر رہ گئی تھیں۔ اورجس کے چہرے کی شادابی کو دیکھ کر کربلا کے تپتے سورج کے ماتھے سے پسینے کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔

 

وہ حسین  جس نے اس رادے سے کہ ایوان حق کے چراغاں پر کوئی آنچ نہ آ سکے۔ اپنے گھر کے تمام چراغوں کو بجھا دیا تھا ۔۔۔ اور ناموس انسانی کو بچانے کی خاطر‘ جس نے‘ فولاد کو پگھلا دینے والے عزم‘ اور ‘ زلزلوں کی سانس اکھاڑ دینے والے ثبات کے ساتھ موت سے ٹکر لی تھی۔‘ اور ایسی ٹکر کہ موت کی پیشانی سے لہو کا فوارہ جاری ہو گیا تھا۔ حسین ناتواں تھے یزید توانا تھا قانون قدرت کے مطابق ہونا چاہئے تھا کہ یزید حسین کو شکست دے کر حسینیت کا چراغ گل کردیتا۔

 

لیکن ہوا یہ کہ قانون قدرت کے علی الرغم‘ حسین کی ناتوانی نے یزید کی توانائی کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا  اور اپنی مقتولیت کی ایک ضرب سے‘ قاتل کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ وہ موت جس کے صرف تصور سے بڑے بڑے ساونتوں کی پنڈلیاں کانپنے لگتی ہیں۔‘ وہ موت‘ منہ کھولے‘ جب حسین کے سامنے آئی تو حسین اس کو دیکھ کر ایسی حقارت کے ساتھ مسکرائے کہ خود موت کی نبضیں ساقط ہو کر رہ گئیں۔

 

سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس وقت بھی جب کہ تیروں کا موسلادھار مینہ برس رہا تھا اور حسین اپنے رفیقوں اور جگر گوشوں کی لاشیں‘ میدان سے اٹھا اٹھا کر‘ بار بار‘ خیمے کی طرف جا رہے تھے۔ اور اس سے زیادہ حیرت یہ ہے کہ جب ان کے تمام انصار و اقرباء۔ موت کی نیند سو چکے تھے اور ان کا قتل ایک یقینی امر بن چکا تھا عین اس نازک ترین‘ اور مہلک لمحہ میں بھی ان کے حواس بجا تھے ۔ اور یہ دیکھ کر کہ ہیبت باطل سے حق کا چہرہ سفید ہو چلا ہے وہ اس پر سرخی دوڑانے کے لئے بڑے اطمینان کے ساتھ‘ اپنا خون روانہ کر رہے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ اس یقینی ہلاکت کے موقع پر ان کے حواس بجا تھے۔ بلکہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی قربانی دے چکنے کے بعد بھی ان کے چہرے پر اس فخر و مباہات کی ایک ایسی معمولی سی دھاری بھی رونما نہیں ہوئی تھی اور ان کی زبان سے ایک ایسا آدھا لفظ بھی ادا نہیں ہوا تھا جس سے پتہ چلتا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اہل اسلام میں نے غیرت اسلام کے آفتاب کو ڈوبنے سے بچا کر تم پر احسان کیا ہے‘ اور میں نے اپنے واسطے یہ حق خرید لیا ہے کہ تم مجھ کو ایثار کا دیوتا سمجھ کر میرے سامنے اپنی گردنیں جھکا لو۔

اے حسین ۔ اے دریائے زہر سے آب حیات پینے والے ۔ اے بھپرے طوفان کو اپنے سفینے میں ڈبو دینے والے ۔ اے حریم شہادت کے سب سے اونچے منارے اے ہمت مردانہ کے اوتار اور اے ثبات و عزم کے پروردگار ۔ ازل سے لے کر ابد تک کی انسانیت کا غلامانہ سلام قبول کر!

 

   تحریر: علامہ سید ساجد علی نقوی


متعلقہ تحریریں: 

 یکم محرّم الحرام

محرّم الحرام کی دسویں تاریخ