• صارفین کی تعداد :
  • 4702
  • 12/23/2008
  • تاريخ :

مقامِ منی میں اہلِ بیت کے حق کو بتاتے ہوئےامام حسین (ع) کا خطبہ

یا ابا عبدالله الحسین-ع-

سلیم بن قیس کہتے ہیں: امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امت میں فتنہ و فساد بہت زیادہ پیدا ہوگیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ ہر اللہ کا دوست اپنی موت کے بارے خائف تھا یا شہر سے نکالے جانے کے ڈر میں مبتلا تھا جبکہ ہراللہ کا دشمن انتہائی آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔

بہرحال مرگِ معاویہ سے ایک سال پہلے امام حسین علیہ السلام، جنابِ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ ابن جعفر کو ہمراہ لئے حج بیت اللہ کیلئے مشرف ہوئے تو امام علیہ السلام نے بنی ہاشم کے مردوں، عورتوں اور غلاموں کے علاوہ اپنے آپ کو پہچاننے والے لوگوں کو اور اپنے اہلِ بیت کو اکٹھا کیا، یہاں تک کہ سات سو سے بھی زیادہ لوگ ، جن میں اکثر تابعین تھے اور تقریباً ۲۰۰ آدمی اصحابِ پیغمبر میں سے تھے، یوں خطبہ دیا۔

حمد ِ الٰہی کے بعد فرمایا:

بہرحال اس سرکش اور تجاوز کرنے والے (معاویہ ) نے ہم اور ہمارے شیعوں پر ایسے ایسے ظلم روا رکھے ہیں کہ جن کے متعلق تم خود شاہد ہو۔ اس کے مظالم کے متعلق تم تک پوری خبریں پہنچ چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں تم سے پوچھتا ہوں۔

اگر میں سچ بولوں تو میری تصدیق کرو اور اگر خلافِ واقعہ بیان کروں تو میری تکذیب کرو۔ سب سے پہلے میں اللہ اور رسولِ خدا اور سے اپنی قرابت داری کے حق کے متعلق سوال کرتا ہوں۔ میری باتوں کو غور سے سنو اور ضبطِ تحریر میں لاؤ۔ جب بھی تم اپنے اپنے شہروں میں ، اپنے قبیلے کے افراد کے پاس جاؤ تو ان میں سے جن لوگوں کے متعلق تم یقین اور وثوق رکھتے ہو، ہمارے ان حقوق کے متعلق پردہ اٹھاؤکیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حق کہنہ ہوکر ختم ہوجائے یا اہلِ باطل اس پر غالب آ جائیں۔ہاں! یہ بات مسلّم ہے کہ خدا اپنے نور کو مکمل کرکے ہی رہے گا ، چاہے کافروں کیلئے سخت ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔

 

سلیم بن قیس کہتے ہیں:جو کچھ قرآن میں ان کے والدین اور اہلِ بیت اطہار کے بارے نازل ہوا ہے، جو کچھ پیغمبر نے ان کے بارے ارشاد فرمایا، انہوں نے بیان کردیا۔

ہر بات پر صحابہ کرام اس طرح تائید کرتے رہے کہ ہاں! ہم نے یہ بات سنی تھی اور گواہی دیتے ہیں جبکہ تابعی یوں تائید کرتے کہ ہم نے اپنے موردوثوق صحابہ کرام سے سنی ہے۔ پھر امام علیہ السلام یوں گویا ہوئے: خدا کی قسم! یہ باتیں اپنے قابل اعتماد دوستوں کو بتاؤ۔

سلیم بن قیس کہتے ہیں کہ سب سے سخت اور رقت آمیز گفتگو یہ تھی:

فرمایا: خدا کی قسم! کیا تم جانتے ہوکہ جب پیغمبر اسلام(ص) نے صحابہ کرام کے درمیان برادری قائم کی تو اس وقت علی علیہ السلام کو اس طرح اپنا بھائی بنایا: فرمانے لگے کہ اے علی ! دنیا اور آخرت میں میں تمہارا اور تم میرے بھائی ہو۔ تمام حاضرین نے بیک زبان تائید کی۔

پھر فرمایا: خدا کی قسم!کیا تم جانتے ہو کہ جب پیغمبر اسلام(ص)نے اپنی مسجد تعمیر کرنے کیلئے زمین خریدی، پھر مسجد تعمیر کی، پھر مسجد کے اطراف میں دس گھر بنائے جن میں سے نو گھر اپنے لئے اور ایک گھر جو درمیان میں تھا، ہمارے والد گرامی کیلئے بنایا۔ پھر مسجد کی طرف تمام کھلنے والے دروازوں کو بند کردیا، سوائے میرے والد ِگرامی کے دروازے کے۔ جب لوگوں نے اس حوالہ سے باتیں کیں تو فرمایا کہ جس طرح نہ میں نے تمہارے دروازے اپنی مرضی سے بند کئے، اسی طرح علی علیہ السلام کا دروازہ بھی اپنی مرضی سے کھلا نہیں رکھا بلکہ یہ سب کچھ حکمِ خداوندی کے تحت ہوا ہے۔ پھر سوائے علی علیہ السلام کے تمام کو مسجد میں سونے سے منع فرما دیا جبکہ اُسی مسجد میں پیغمبر اسلام(ص)کیلئے اولادیں پیدا ہوئیں۔

اس بات پر بھی سب نے تائید کی۔

کیا تم جانتے ہو کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے اپنے گھر سے مسجد کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ رکھنے پر اصرار کیا لیکن پیغمبر اسلام(ص)نے ایک نہ مانی بلکہ یوں خطبہ ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں ایسی پاک و پاکیزہ مسجد تیار کروں جس میں علی اور ان کے دو بیٹے فقط رہ سکتے ہیں۔

پھر بھی سب لوگوں نے تائید کی۔

میں تمہیں خد اکی قسم دیتا ہوں ، کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے غدیر خم میں میرے والد گرامی کو یوں منصوب کیا کہ بلند آواز میں ان کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ضروری ہے کہ حاضرین وغائبین کو اطلاع کردیں۔

پھر سب لوگوں نے تائید کی۔پھر فرمایا:

خدا کی قسم! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام(ص)نے غزوئہ تبوک میں میرے والد گرامی سے یوں فرمایا تھا کہ آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی اور میرے بعد تمام موٴمنین کے ولی و سرپرست ہیں۔

پھر بھی سب نے تائید کی۔پھر فرمایا:

خدا کی قسم کھا کے بتاؤ کہ کیا اہلِ نجران کے ساتھ مباہلہ کرنے کیلئے پیغمبر اسلام(ص)سوائے ہم پنجتن کے کسی کو بھی ہمراہ لے کر گئے تھے؟

پھر بھی سب نے تائید کی۔ اس کے بعد فرمایا:

خدا کی قسم! کیا تم جانتے ہو کہ جنگ خیبر میں پیغمبر اسلام(ص)نے علمدار علی علیہ السلام کو بنایا اور فرمایا کہ آج پرچم ایسے شخص کو دے رہا ہوں کہ جسے اللہ اور اللہ کا رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور رسولِ خدا کو دوستے رکھتا ہے۔ مزید اس کی نشانی یہ ہے کہ پلٹ پلٹ کر حملے کرتا ہے اور میدانِ جنگ سے فرار کرنے والا بھی نہیں ہے۔ یقینا خدا اُس کے ہاتھوں ہی اسلام کو فتح دیتا ہے۔

پھر بھی سب نے تائید کی۔ پھر فرمایا:

کیا تم جانتے ہو کہ رسولِ خدا نے میرے والد کو سورة برأت مکہ پہنچانے کیلئے بھیجا اور فرمایا کہ اس سورة کو خود میں یا کوئی میرے جیسا ہی مکہ میں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔

اس پر بھی سب نے تائید کی۔پھر آپ نے فرمایا:

کیا تم جانتے ہو کہ ہر مشکل گھڑی میں پیغمبر نے میرے والد ِ گرامی کو آگے کیا کیونکہ ان کے بارے میں وثوق رکھتے تھے۔ کبھی بھی پیغمبر نے ان کو نام سے نہیں پکارا بلکہ کہتے تھے:" اے بھائی علی "، یا کہتے تھے کہ میرے بھائی کو بلاؤ۔

اس پر پھر سب نے تائید کی۔ اس کے بعد آپ یوں مخاطب ہوئے:

کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام(ص)نے ان کے اور حضرت جعفر، حضرت زید کے درمیان قضاوت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔تم میرے بعد تمام موٴمنوں کے ولی اور سرپرست ہو۔

پھر سب نے تائید کی۔پھر فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ میرے والد گرامی ہر دن اور رات میں پیغمبر اسلام(ص)سے تنہائی میں ملاقات کرتے تھے۔ جب بھی انہوں نے سوال کیا، پیغمبر اسلام(ص)نے جواب دیا اور جب بھی وہ خاموش ہوئے،رسولِ خدا نے گفتگو کا آغاز فرمایا۔

اس کی بھی سب نے بھرپور تائید کی۔ پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے علی علیہ السلام کو جنابِ جعفر اور حضرت حمزہ پر یوں کہہ کر برتری دی کہ اے فاطمہ ! تمہارا اپنے خاندان میں سب سے اچھے آدمی کے ساتھ عقد کیا ہے جو اسلام، حلم اور علم میں سب سے افضل ہے۔

اس پر بھی سب نے تائید کی۔ پھر فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)کا ارشاد ہے کہ میں پوری انسانیت کا سید و سردار ہوں جبکہ علی تمام عرب کے سردار ہیں۔ حضرت فاطمہ تمام اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں جبکہ حسن اور حسین میرے دو بیٹے جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

اس پر پھر سب نے تائید کی۔ اس کے بعد فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے اپنے آپ کو غسل دلوانے کیلئے علی علیہ السلام کو حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ جبرائیل آپ کی مدد کریں گے۔

سب نے کہا:جی ہاں!یہ درست ہے۔پھر آپ نے فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک کتاب اللہ اور دوسرے اپنے اہلِ بیت ۔ پس ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے۔

سلیم بن قیس کہتے ہیں : جو کچھ علی اور اہلِ بیت ِ اطہار کے بارے میں قرآن اور روایات میں بیان ہوا تھا، امام علیہ السلام نے سب کچھ بیان کرتے ہوئے لوگوں سے ان پر اقرار لیا اور جواب میں صحابہ کرام یوں کہتے کہ ہاں! ہم نے خود پیغمبر اسلام(ص)سے سنا جبکہ تابعین کہتے تھے کہ ہم نے فلاں فلاں موثق آدمیوں سے سنا ہے۔

 

پھر امام حسین علیہ السلام نے صحابہ کرام کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا پیغمبر اسلام(ص)نے یہ فرمایا تھا کہ وہ آدمی جھوٹ بولتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے دوست رکھتا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام کو دشمن رکھتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ علی علیہ السلام کو دشمن رکھتا ہو جبکہ مجھے دوست رکھتا ہو؟کسی نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو فرمانے لگے: چونکہ علی علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں علی علیہ السلام سے ہوں۔ جو علی علیہ السلام سے محبت رکھتا ہو، وہ مجھ سے بھی محبت رکھتا ہے اور مجھے دوست رکھنے والا گویا اللہ کو دوست رکھتا ہے۔ جو علی علیہ السلام سے بغض رکھتا ہو، وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا اللہ تعالیٰ سے بغض رکھتا ہے۔

یہاں پر بھی تمام حاضرین نے تائید کی اور کہا کہ ہاں! ہم نے سنا ہے اور پھرمنتشر ہوگئے۔(تحف العقول:۲۳۷،احتجاج:۲۹۶)

 

                    ( اردو شیعہ ڈاٹ کام )


متعلقہ تحریریں:
محرّم الحرام کی دسویں تاریخ

محرم الحرام کے پیغام

یکم محرّم الحرام