• صارفین کی تعداد :
  • 4268
  • 7/4/2009
  • تاريخ :

مھناز رؤفی کا انٹرویو (حصّہ سوّم )

مھناز رؤفی

سوال  : بابیت كا بھائیت سے كیا رابطہ ھے ؟

سب سے پھلے میں آپ سے یہ التماس كرتی ھوں كہ آپ بہائیوں سے ایك سوال كریں، جو یقیناً بے غرض اشخاص كو اس بات پر فكر مند كردے گا كہ جو بھائیت كے دھوكے میں آئے ھیں اور وہ یہ ھے كہ اگر باب نے بھاء كو بشارت دی ھے، تو ان كی تعلیمات پر عمل كیوں نھیں ھوا جو اپنے ساتھ وہ لائے ۔

 سوال  : وہ كیسے ؟

 جواب : كیونكہ باب كی تعلیمات رائج ھونے سے پھلے ھی ان كو سولی دے دی گئی، لھٰذا بھاء نے نئی تعلیمات كا آغاز كیا اور ان كی تعلیمات كو دریا برد كردیا، یہ چیز بھائیوں كے آثار میں موجود ھے، البتہ باب كی كچھ عبارتیں موجود ھیں، جن سے یہ ظاھر ھوتا ھے كہ وہ ذھنی اعتبار سے مفلوج تھا، یہ عبارتیں تمام بھائیوں كے پاس موجود نھیں ھیں، لیكن اگر كوئی تحقیق و جستجو كركے اس كو حاصل كرے، پھر اس كا فارسی زبان میں ترجمہ كرے، تو وہ ان عبارتوں كی طرف متوجہ نھیں ھو سكتا، گویا باب كی باتیں قابل فھم و ادراك نھیں ھیں ۔

 سوال : یعنی باب كی عبارتیں قابل ترجمہ نھیں ھیں ؟

جواب : جی ھاں، كیونكہ اس میں صرف و نحو پر كافی اعتراض واقع ھوا ھے، جب اس سے سوال ھوا كہ آپ نے اپنی عبارتوں میں قواعد ابتدائی كی بھی رعایت كیوں نھیں كی ھے، تو جواب دیا كہ میں خود صرف و نحو كو ایجاد كرتا ھوں اور جو صرف و نحو موجود ھے وہ صحیح نھیں ھے،

یا بابیت میں ایك عجیب و غریب مسئلہ یہ ھے كہ اگر كوئی عورت اپنے شوھر كے ذریعہ حاملہ نہ ھوسكے تو وہ دوسرے مرد سے قربت كركے حاملہ ھوسكتی ھے، اس كے علاوہ بھی بھت سے احكام " باب " نے پیش كئے ھیں، جو انتھائی نفرت آمیز ھیں ۔

یا باب یہ بھی كھتا ھے كہ اس كی كتاب كے علاوہ جو بھی كتابیں ھیں، وہ جلا دی جائیں، یا اس كا نظریہ یہ بھی ھے كہ تمام اماكن مقدسہ یھاں تك كی مسجد الحرام تك كو ڈھا دیا جائے، فقط اس كا مرقد سالم رھے ۔

لیكن اس كی ساری كوششیں خاك میں مل گئیں، جب بہائیوں سے یہ پوچھا جاتا ھے كہ اس طرح كے احكام تمھارے یھاں كیوں ھیں، تو كھتے ھیں كہ ھم " بابی " نھیں ھیں، گویا وہ راہ فرار اختیار كرتے ھیں ۔

 سوال : كیا وہ باب كو نھیں مانتے ؟

 جواب : وہ باب كو فقط اس حد تك تسلیم كرتے ھیں كہ وہ بھاء كا بشارت دینے والا ھے، لیكن جب اس كے احكام كی بات آتی ھے تو كھتے ھیں كہ ھم بابی نھیں ھیں ۔

 سوال : یعنی ان كے یھاں تضاد پایا جاتا ھے ؟

 جواب : جی ھاں ۔ یہ تضاد ھے كیونكہ بھائیت، بابیت سے وجود میں آئی ھے ۔

 سوال : بھائیت كے بارے میں ایك بحث یہ ھوتی ھے كہ وہ محارم سے شادی جائز جانتے ھیں لطفاً اس كی توضیح دیں ؟

 جواب : بہائیت میں یہ مسئلہ بیان كیا جاتا ھے كہ باپ كی بیوی سے شادی كرنا حرام ھے، جیسا كہ بھاء نے اس بات كو اپنی كتاب میں تحریر كیا، البتہ دوسرے محارم سے متعلق مسائل بیان نھیں ھوئے ھیں، اس لئے یہ سوال پیش آتا ھے ۔

سوال : اس سلسلہ میں ان كا جواب كیا ھے ؟

جواب : وہ یہ كہہ كر خاموش ھوجاتے ھیں كہ دوسرے مسائل اسلام میں موجود ھیں، لھٰذا ان كے بیان كرنے كی چنداں ضرورت نھیں ھے، جب كہ یہ مسئلہ بھی اسلام میں موجود ھے كہ باپ كی بیوی سے شادی نھیں كرسكتے ؟ پس فقط اس مسئلہ كو كیوں بیان كیا ھے، یہ وہ سوال ھے جس كا بہائی جواب نھیں دیتے ( گویا مسائل میں تضاد دیكھ كر حیران رہ جاتے ھیں )

ترجمہ : مھدی حسن بھشتی

(گروہ ترجمہ: سائٹ صادقین)


متعلقہ تحریریں:

مھناز رؤفی کا مختصر تعارف

ویٹیکن اور مصرمیں ایران کے سابق سفیر جناب سید خسروشاہی کا انٹرویو