• صارفین کی تعداد :
  • 4219
  • 7/21/2009
  • تاريخ :

مھناز رؤفی کا انٹرویو (حصّہ پنجم)

مہناز رؤفی

سوال : بہائی دوسرے اشخاص كو اپنے مذھب كی طرف كیسے دعوت دیتے ھیں ؟

 جواب : پھلے وہ دوسروں سے ان كے عقائد معلوم كرتے ھیں، پھر ان كے ایمان كو سست اور كمزور بناتے ھیں، اس كے بعد كھتے ھیں كہ اپنے اعتقاد كو چھوڑ كر بھائیت كو قبول كر لو ۔ اپنے مدّ مقابل كو جذّاب و پرُ كشش نكات كے ذریعہ اپنی طرف كھینچتے ھیں، چنانچہ وہ كھتے ھیں كہ ھمارے عقائد میں مرد اور عورت مساوی ھیں، لوگوں كے درمیان صلح و اتحاد قائم كرنا ھمارا فریضہ ھے ۔ گویا وہ اپنے سفسطہ ( غیر منطقی استدلال ) كے ذریعہ اسلام سے دور كرتے ھیں اور اپنے مذھب كی طرف جذب كرتے ھیں ۔

 سوال : اس وقت بہائیوں كی تعداد كتنی ھے ؟

بہائی اپنے ھم مذھب كو دستور دیتے ھیں كہ وہ دوسرے ممالك میں جھاں تك ممكن ھو پھیل جائیں تاكہ ھر جگہ ان كا وجود تسلیم كر لیا جائے، ان كی تعداد تقریباً ۵۰ سے ۶۰ ھزار تك ھے ، جو ساری دنیا میں پھیلے ھیں، البتہ وہ اپنی تعداد تین لاكھ تك بتاتے ھیں جو قطعا غلط ھے ۔

سوال : كیا بہائی سیاست میں حصہ لینے كو حرام جانتے ھیں ؟

 جواب : جی ھاں، بہائی سیاست میں حصہ لینے كو حرام جانتے ھیں، لیكن یہ ظاھری طور پر ایسا ھے ورنہ وہ اس كے برعكس عمل كرتے ھیں، آپ بخوبی جانتے ھیں كہ بزرگان بہائی، مراكز سیاست میں رھتے تھے، چنانچہ عبد البھاء یورپ اور امریكہ كی حكومت سے كافی اچھے رابطہ میں تھا اس نے ان لوگوں كے لئے الواح تقدیر لكھی ھے، جن میں ان كی مدح و ثنا كی ھے، منجملہ ان میں عثمانی بادشاہ بھی شامل ھیں ۔ عبد البھاء ایك لوح میں یہ تحریر كرتا ھے كہ ایران پر حملہ كردو ، چنانچہ برطانیہ كے ایك بادشاہ سے كھا تھا كہ اس وقت موقع مناسب ھے، ایران پر حملہ كردو ۔ بھر حال ان كے یھاں سیاست میں دخالت حرام ھے، یہ چیز ان كے اصول مذاھب میں سے ھے ۔

 سوال : اس كا سبب كیا ھے ؟

 جواب : ظاھراً یہ سب ایك كھیل تماشہ ھے، ورنہ زمانۂ شاہ میں وزیر اعظم بہائی تھا، یا اركان ساواك ( وہ فوج خو قتل و غارتگری كرتے تھے اور حكومت كے مخالفین كو طرح طرح كی سزائیں دیا كرتے تھے ) یا شاہ كا مخصوص طبیب ڈاكٹر ایادی یہ سب بہائی مسلك سے تعلق ركھتے تھے، چنانچہ انقلاب جمھوری اسلامی ایران كی كامیابی كے بعد دوبارہ سیاست میں حصہ لینا حرام ھو گیا، تاكہ بھائیوں كی طرف سے حكومت كی كوئی مدد نہ ھو سكے، انھوں نے كسی ایسے پروگرام میں شركت بھی نھیں كی جس سے حكومت كو تقویت ملے یا ملك كو ترقی ملے، ان لوگوں نے جنگ میں بھی حصّہ نھیں لیا، یہ كھتے ھوئے كہ ھمیں اجازت نھیں ھے كہ ھم سیاست میں شریك ھوں، یہ سب حكومت كی مدد نہ كرنے كا ایك بھانہ تھا، بھائیت كے مذھب میں یہ بات بھی اصول میں سے ھے كہ جس ملك میں رھیں اس حكومت كی اطاعت كریں، لیكن انھوں نے ایران میں اس قانون پر عمل نھیں كیا بلكہ وہ خفیہ طور پر حكومت كے خلاف اپنی فعالیت انجام دیتے تھے، چنانچہ جب حكومت نے انھیں روكا تو فعالیت نہ كرنے كا وعدہ اور جمھوری اسلامی ایران كے قوانین پر عمل پیرا ھونے كا عھد و پیمان باندھا، لیكن بیت العدل سے یہ دستور آیا كہ وہ معاشرہ و سماج میں داخل ھو كر علنی طور سے اپنی فعالیت انجام دیں ۔

 سوال : یہ دستور كب صادر ھوا ؟

جواب : ابھی چند سال پھلے، چنانچہ اس وقت وہ تیزی سے اپنا كام كر رھے ھیں، اس وقت ھر بہائی كا وظیفہ ھے كہ ۳ / سے ۵ / مسلم گھرانہ كو اپنے مذھب كی طرف لائے، ابھی سال گزشتہ یہ دستور آیا ھے كہ وہ پارلیمنٹ كے انتخابات میں حصہ لیں اور ووٹ دیں ۔

سوال : وہ كیوں ؟

 جواب : تاكہ اس كے سبب پارلیمنٹ تك پھونچیں اور اراكین پارلیمنٹ سے تعلقات بڑھا كر ان كے افكار كو تبدیل كریں اور اس كے ذریعہ سے اپنے منافع كو محفوظ ركھیں، چنانچہ وہ اراكین سے ملاقات كرتے ھیں اور مخصوص طرز سے اظھار خیال كرتے ھیں كہ ھم بہائی ھیں، اگر آپ اجازت دیں تو ھم اپنے عقائد كو بیان كریں اور اس كے سلسلہ میں آپ خود قضاوت كریں ۔

ترجمہ : مھدی حسن بھشتی

(گروہ ترجمہ: سائٹ صادقین)


متعلقہ تحریریں:

مھناز رؤفی کا انٹرویو (حصّہ اوّل)

مذھب بھائیت كی مختصر تاریخ