• صارفین کی تعداد :
  • 1568
  • 8/30/2009
  • تاريخ :

عزیزحکیم جیسے مردان بزرگ مرتے نہيں ہيں

حجت الاسلام سید عبدالعزیزحکیم

مجلس اعلائے اسلامی عراق کے سربراہ حجت الاسلام سید عبدالعزیزحکیم کے جنازے کو جنھوں نے گذشتہ بدھ کو تہران کے ایک اسپتال میں دارفانی کوالوداع کہا آج عراق کے مقدس شہروں کربلائے معلی اور نجف اشرف میں تشیع کرنے کے بعد نجف اشرف میں ان کےشہید بھائی آیت اللہ سید باقرالحکیم کے پہلومیں سپردخاک کردیا گیا ۔اس سے پہلے سیدعبدالعزیزحکیم کے جنازے کی ایران کے شہروں تہران وقم اور پھر عراق کے شہروں بغداد و حلہ میں بھی تشیع کی گئی اس موقع پر بغداد میں ملک کی اعلی ترین سیاسی شخصیات منجملہ عراقی صدرجلال طالبانی اور وزیراعظم، نوری مالکی، سمیت ان کی کابنیہ کے وزراء نے ان کے جلوس جنازہ میں شرکت کی ۔

عراق میں حکومت نے ان کی وفات پر تین روز تک عام سوگ کا اعلان کیا اورسبھی سیاسی ومذہبی رہنماؤں نے سید عبدالعزیرحکیم کی خدمات کو جذباتی اندازمیں خراج عقیدت پیش کیا ۔

سید عبدالعزیزحکیم کی تدفین کی رسومات میں شرکت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ منوچہرمتکی بھی بغداد اورپھر نجف  اشرف گئے ۔ مجلس اعلائے اسلامی کے سربراہ کی وفات جہاں عراق اور علاقے کی اسلامی تحریکوں کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے وہیں عراق اوراسلامی تحریکوں کے لئے جنبش وجوش کا باعث بھی ہوگی ۔عظیم مردان مجاہد کی موت بھی اسی طرح ان کے اعلی اہداف ومقاصدکی تکمیل کے لئے موثر ہوتی ہے، جس طرح ان کی حیات ان کے اہداف کوتحرک بخشتی ہے اور موت بھی راستے میں پائی جانے والی تمام رکاوٹوں اورمشکلات کو حل کرنے میں موثر واقع ہوتی ہے ۔

ان دنوں عراق کے عوام اپنے ملک کے عظیم خاندان جو حکیم خاندان سے معروف ہے تجدید پیمان وعہد کررہے ہیں۔

اوراس ملک کے عوام عراقی سرزمین کی آزادی و خودمختاری نیزاسلام اوراسلامی اقدارکی حفاظت کے تعلق سے آل حکیم اوراس خاندان کے سپوتوں کی فداکاریوں اورقربانیوں کا ایک بارپھر مطالعہ کر رہے ہيں اور اس عظیم مجاہدخاندان کی فداکاریوں کوجوتاریخ کا ایک درخشاں باب بن چکی ہیں ذہنوں میں دوبارہ زندہ کر رہے ہيں ۔ یہ حقائق جو عراق کے ادھیڑاور سن رسیدہ لوگوں کے ذہنوں اورتاریخ کے سینوں میں ثبت ہیں ان دنوں دوبارہ لوگوں کی زبانوں پرجاری ہوگئے ہيں اوراہل قلم ان کواپنے مخصوص جذبات اورناقابل انکارحقائق کی بنیاد پرصفحات قرطاس پرروشن کررہے ہيں ۔تاکہ ان تاریخی حقائق کونئي نسلوں تک منتقل کریں اوریوں عراقی عوام کی جہادی اورفکری بنیادوں کوتقویت پہنچائيں ۔سید عبدالعزیزحکیم ، بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم (رہ) کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ۔ آیت اللہ محسن الحکیم وہ مجاہد مرجع تھے جنھوں نے انیس سوچالیس کے عشرے میں <الشیوعیہ کفروالحاد > نامی معرکۃ الآراء اورمعروف فتوی جاری کیا اورانھوں نے اپنے اس اقدام کے ذریعہ بعث پارٹی کواس کے غیراسلامی وغیرانسانی اقدامات کی وجہ سے کافر و ملحد قراردیا ۔ آیت اللہ محسن الحکیم کے اسی جرآت مندانہ فتوی کی ہی بدولت عراق میں اسلامی تحریک کا نیا دورشروع ہوا اورپھر امام خمینی (رہ) کے بھی ا فکارونظریات سے استفادہ کرتے ہوئے جو انیس سو چالیس وپچاس کے عشروں کے دوران تیرہ سال کے عرصے تک نجف اشرف میں قیام پذیر رہے یہ تحریک اپنے عروج پر پہنچی اور پھر اس تحریک کے جیالوں اورسپوتوں نے سن دو ہزار تین کے بعد جب  ظالم صدام اوراس کی بعث پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہوا عراق کی زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے ہی لی ۔ اس میں شک نہيں کہ امام خمینی (رہ) نے عراق کی اسلامی تحریک میں بہت ہی نمایاں کرداراداکیا جیسا کہ شہید محمد باقرالصدرنے اپنے شاگردوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ <<ذوبوافی الامام خمینی کماذاب ھوفی الاسلام >>امام خمینی میں اسی طرح گھل جاؤ جیسے وہ اسلام میں گھل گئے ہيں ، لیکن عراق میں حکیم خاندان کی فداکاریوں نے جس نے اپنے ستر گرانبہا شخصیات کی جن میں ممتاز علماء و فضلاء شامل ہيں قربانی دی اور جن کو بعث پارٹی کے کارندوں نے صرف اس جرم میں شہید کردیا کہ وہ عراقی عوام کے لئے اسلام وآزادی کے خواہاں تھے عراق کی اسلامی تحریک کوآگے بڑھانےاوراسے کامیاب بنانے میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔

اس وقت بھی عراق کے علمی و سیاسی میدان میں بھی حکیم خاندان کے چشم وچراغ اپنی علمی وسیاسی سرگرمیوں کا پرچم  بلند کئے ہوئے ہيں کہ جن کاوجود پربرکت اس عظیم خاندان کی برکتوں کے تسلسل کا نوید دے رہا ہے ۔

مرجع تقلیدآیت اللہ سعیدحکیم کے علاوہ جنھوں نے سو مہینے تک اپنی عمرکا گرانقدر حصہ صدام کے قیدخانوں میں گذارا اور عراق کی اسلامی تحریک کے ایک مضبوط پشت پناہ سمجھے جاتے ہيں شہید آیت اللہ باقرالحکیم اورمرحوم سید عبدالعزیزحکیم کے بیٹے بھی عراق کے سیاسی و مذہبی میدان میں سرگرم عمل ہيں ۔ اس درمیان سید عبدالعزیزحکیم کے بیٹے سید عمارحکیم نے جو اپنے والد کی علالت کے دوران مجلس اعلاے اسلامی عراق کے اموردیکھ رہے تھے اپنی لیاقت اورسیاسی بصیرت وتدبر کا  بھرپورثبوت پیش کیا ہے اورعراقی عوام کے دلوں میں یہ امید پوری طرح سےجگا دی ہے کہ وہ اپنے مرحوم والد کی خالی جگہ کوکافی حدتک پرکردیں گے ۔

سید عمارحکیم ایک دانشمند جوان ہیں جو دینی تعلیم کےساتھ ساتھ دنیوں علوم سے بھی آراستہ ہیں ان کے اندر سیاسی تدبراورانقلابی جذبہ کوٹ کوٹ کے پایا جاتا ہے اور سیاسی میدان میں انھیں کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا ہے اسی لئے عراقی عوام اور ساتھ ہی علاقے کی اسلامی تحریکوں کواس بات کی پوری توقع  ہے کہ وہ عراق کی اسلامی تحریک کے نئے دورکی امید ثابت ہوں گے

 یقینی طور پر اس وقت عراق کی اسلامی تحریک کو جن اہم اقدامات کی ضرورت ہے ان میں اہم ترین یہ ہے کہ حکومتی مشینریوں اور سیاسی میدان سے بعث پارٹی کے عناصرکو دور رکھا جائے اورعراق سے امریکی فوج کے انخلاء کے مطالبہ کو پوری شدت کے ساتھ جاری رکھا جائے اورملک میں دہشت گردگروہوں کی سرگرمیوں کوختم کرکے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ قریبی اوردوستانہ تعلقات برقرارکئے جائيں مگران تمام باتوں سے زیادہ اہم بات عراق کی اسلامی تحریک کے سامنے یہ ہے کہ عراقی عوام کے لئے رفاہ وآسائش فراہم ہو، ان کے اندر پایا جانے والا احساس عدم تحفظ ختم کیا جائے اور ساتھ ہی عراق کے تمام قبائل و فرقوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی و خوشگوار مسالمت آمیز زندگی گذارنے کا چلن بحال ہو جو صدیوں سے عراقی عوام کا طرہ امیتاز رہا ہے اور یہ بنیادی اہداف اسی وقت پورے ہوں گے جب ملک سے امریکی فوج کا انخلاء ہوگا، دہشت گردانہ کاروائیوں کا خاتمہ ہوگا اور کالعدم بعث پارٹی کے عناصر کو مکمل طور پر دست بستہ کردیا جائے گا ۔اس کے ساتھ ہی عراق کے بزرگ مراجع تقلید اور اسی طرح ديگر قبائل اور فرقوں کے عمائدین کی پشتپناہی بھی عراق کی اسلامی تحریک کےلئے اپنے مقاصد کے حصول میں بہت ہی زیادہ موثر و مددگار ثابت ہوگی اور اس پوری اسٹرٹیجی کو اگر مکمل ہوشیاری و بیداری کے ساتھ روبہ عمل لایا جائے تو عراق کی کامیابی، ترقی و خوشحالی کو کوئي بھی طاقت چلینج نہيں کرسکے گی اور اس وقت جب پورا عراق سوگ میں ہے تو عراقی عوام سید عبدالعزیزحکیم کی روح سے تجدید عہد کرکے  ان کی تحریک  میں دوگنہ جان ڈال سکتے ہیں ۔

راقم:علی عباس رضوی  ( اردو ریڈیو تہران )