• صارفین کی تعداد :
  • 1691
  • 9/8/2009
  • تاريخ :

امریکہ کا خود ساختہ زخم (حصّہ چهارم)

نائن الیون

   سوویت یونین کے زوال کے بعد بھی نیٹو نے مشرقی یورپ کے ممالک کو اپنا ممبر بنانے اور اپنی حدود میں توسیع کرنے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھیں۔ حالانکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد وارسا پیکٹ(جس کے مقابلے پر نیٹو کی تشکیل دی گئی تھی) ختم ہوگیا۔ پھر نیٹو نے سرد جنگ کے بعد یہ اندھا دھند توسیع کس موہوم خطرے سے نپٹنے کے لئے کی پھر اس ”سیلابِ بلا“ نے کہیں کا رخ تو کرنا تھا جس کے لئے کوئی جواز بھی ضروری تھا USAمیں نائن الیون کے واقعے سے بہت پہلے سولہویں صدی کے ایک یہودی عالم ماسٹر ڈیمنس کی پیش گوئیوں پر مبنی ایک فلم بنائی گئی جس میں دکھایا گیا کہ 1999ء یا اس کے لگ بھگ نیویارک پر کچھ لوگ حملہ آور ہوں گے یہ سب امور اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مغرب مستقل طور پر اس جنگ اور محاذ آرائی کے لئے تیاری کر رہا تھا۔

   اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کے حوالے سے پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نیاز نائیک کا بیان منظر عام پر آیا ہے کہ افغانستان پر حملے کی تیاری 9/11سے بہت پہلے ہوچکی تھی۔ افغانستان، عراق اور پاکستان میں بہائے جانے والے خون ناحق پر بہت سے ممتاز اورباضمیر امریکیوں نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ حال ہی میں انتقال کرنے والے مشہور اینکر وولٹرکرنکائٹ(Walter Cronkite) نے کہا تھا کہ اس جارحیت نے دنیا میں امریکہ کی Moral Standingتباہ کر دی ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار سابق صدر کارٹر بھی کرتے رہے ہیں۔ آج امریکہ، برطانیہ اور بہت سے دوسرے یورپی ممالک کی اکانومی 1930ء کے بعد بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ صرف امریکہ میں گزشتہ ماہ تقریباً تین لاکھ سے زیادہ لوگ بے کار ہوئے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ دنیا کے لوگ اس بے ہودہ افسوسناک جنگ کی بجائے امن کے لئے کوششیں تیز کریں آخر ہم اپنے بچوں کے لئے کیسا مستقبل اور کیسی دنیا چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں“۔

   انور حسین مجاہد کی باتیں یقینا قابل توجہ ہیں، میں اس میں ایک اضافہ مزید کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر 9/11کا شرمناک واقعہ جس میں چار ہزار بے گناہ امریکی شہریوں کو زندہ جلا دیا گیا، اگر ہم مسلمانوں ہی کا کیا دھرا ہے تو پھر ایک سپرپاور نے اس کا جو خوفناک انتقام عالم اسلام سے لیتے ہوئے جس درندگی کا مظاہرہ کیا، اس کی مذمت تو پھر بھی واجب ہے۔

   نائن الیون پرلکھے گئے میرے کالموں کی یہ قسط ہے جو ”جنگ“ کے ایک قاری اور9/11 کے واقعات پر تحقیقی کام کرنے والی شخصیت جناب غلام مصطفی کے ارسال کردہ مواد پر مبنی ہے۔ غلام مصطفی صاحب پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹینٹ ہیں مگروہ محسوس کرتے ہیں کہ امت ِ مسلمہ کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے 9/11کے سانحہ کے ہرپہلو کا جائزہ لینا ضروری ہے، اس کے بغیر ہم اسی گرداب میں پھنسے رہیں گے اور اس سے نکلنا کبھی ممکن نہیں ہوگا۔ غلام مصطفی صاحب کی تحقیق کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

اگر آپ ایک فضائی کمپنی میں بڑا جیٹ طیارہ اڑانے والے کسی تجربہ کار پائلٹ کیساتھ بات کریں تووہ آپ کو بتائے گا کہ کسی بھی ماہر سے ماہر پائلٹ کیلئے عام حالات میں بھی یہ ممکن نہیں کہ زمینی رہنمائی کے بغیر کسی بڑے جہاز کو اتنی نیچی اڑان میں صحیح سمت میں لے جا کر سینکڑوں کلومیٹر دور کسی عمارت کے ساتھ ٹکرا سکے چہ جائیکہ جہاز کے اندر ایک ہنگامی صورتحال ہو۔ ایک اغوا کنندہ ایک پائلٹ سے جہاز کا کنٹرول چھین لے اور اس کے بعد اپنے حواس کو قائم رکھے اور پھر اتنی مہارت کا مظاہرہ کرے کہ جہاز کو زبردستی بغیر زمینی رہنمائی کے سینکڑوں کلومیٹر دور واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹرزکے ساتھ ٹکرا دے۔

    کسی ماہر پائلٹ کے لئے بھی یہ ایک ناقابل یقین بات ہے اوریہ عمل یکے بعد دیگر دو مرتبہ دومختلف جہازوں میں دہرایا جائے۔ اس حقیقت اور القاعدہ کے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ 11 ستمبر کے واقعہ میں القاعدہ کا کوئی ہاتھ نہیں۔ امریکہ میں کچھ لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ 11ستمبر کو کوئی جہاز عمارتوں سے ٹکرایا ہی نہیں اور درحقیقت امریکی سی آئی اے نے ایک Dectored فلم تیار کی تھی جوکہ سی این این اور بی بی سی نے لوگوں کو سارا دن دکھائی جبکہ عمارتوں کو دھماکوں سے مسمار کیا گیا جس کے لئے ہفتوں نہیں مہینوں کی تیاری ضروری تھی۔ اس دن دکھائی جانے والی فلم میں ان عمارتوں کی چھت کو اوپر سے دکھایا گیا ہے جس میں کہ کیمرہ حرکت نہیں کر رہا۔ تجزیہ کرنیوالے حیران ہیں کہ یہ کیمرہ آخر کہاں نصب کیا گیا تھا۔ ان عمارتوں کی چھت 417میٹر بلند تھی جبکہ ان کے بعد سب سے اونچی عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی چھت 320میٹر بلند ہے۔ تو پھر کیمرہ کہاں نصب تھا۔ اگر تصویریں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ لی گئی تھیں تو کیمرہ حرکت میں ہونا چاہئے تھا اور حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگر واقعی عمارتوں سے جہاز ٹکرائے تھے تو اسکی ایک ہی صورت ہے کہ عمارتوں پر Radio Beacons نصب کئے گئے تھے اور گلوبل ہاک ٹیکنالوجی کے ذریعہ پائلٹوں سے کنٹرول چھین لیا گیا تھا۔

تحریر : عطاالحق قاسمی ( روزنامہ جنگ )


متعلقہ تحریریں:

نہرو کے دور حکومت میں داخلی امن وامان اور خارجہ پالیسی

نہرو کی تعلیمی اور معاشرتی اصلاحات