• صارفین کی تعداد :
  • 3318
  • 11/30/2009
  • تاريخ :

قطب الدین ایبک

قطب الدین ایبک کا مقبره

بچپن میں حاکم نیشا پور قاضی فخر الدین عبدالعزیز کوفی نے اسے خریدا اور اس کے زیر سایہ قطب الدین نے تعلیم و تربیت کے علاوہ شہسواری اور تیراندازی کی تربیت حاصل کی ۔ قاضی فخرالدین کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں نے قطب الدین کو فروخت کر دیا۔ چنانچہ وہ غزنی میں سلطان شہاب الدین محمود غوری کے ہاتھ فروخت ہوا۔ محمد غوری کی نرینہ اولاد نہ تھی ۔ وہ اپنے ترکی غلاموں کو اولاد کی طرح پالتا اور انہیں تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کرتا اور جو صاحب کمال نظر آتے اسے اہم منصب پر فائز کرتا۔ قطب الدین ایبک نے کئی مہموں میں اپنی بہادری اور دلیری کے جوہر دکھائے۔ چنانچہ ترائن کی دوسری جنگ(1192 ‏ء)میں پرتھوی راج چوہان کی شکست کے بعد سلطان نے قطب الدین ایبک کو اپنا نائب سلطنت مقرر کرکے برصغیر میں مزید فتوحات پر مامور کرکے خود غزنی واپس چلا گیا۔

1192ء اور 1194ء کے درمیان قطب الدین نے ہانسی ، میرٹھ ، بلند شہر، دہلی، کوئل(علی گڑھ) قنوج اور بنارس فتح کیے اور متعدد سرکش راجاﺅں پر قابو پایا 1196ء اور 1197ء میں گجرات، انہلواڑہ اور رنتھمبور کے اہم قلعوں قبضہ کرکے 1202ء تک شمالی ہندوستان کے فاتح کی حیثیت اختیار کی۔ 1206ء میں سلطان محمد غوری کی وفات کے بعد قطب الدین لاہور پہنچا۔ جہاں اس کی تاجپوشی کا جشن منایا گیا۔ سلاطین دہلی کے لیے وسط ایشیا کی طرف سے ہر وقت خطرہ رہا کرتا تھا ۔ چنانچہ تاج الدین یلدوز قطب الدین سے شکست کھانے کے باوجود خطرہ بنا رہا۔ اس سے تعلقات استوار کرنے کی خاطر قطب الدین نے تاج الدین یلدوز کی بیٹی سے شادی کر لی۔ نیز اپنی ایک بیٹی کی شادی ناصر الدین قباچہ حاکم ملتان و سندھ سے کردی۔ اور دوسری بیٹی شمس الدین سے بیاہ دی۔ اس رشتوں کیوجہ سے قطب الدین ایبک کی سلطنت بہت مستحکم ہوگئی۔ لیکن قدرت نے اسے نظام حکومت کے میدان میں تنظیمی قابلیت اور فہم و فراست کے جوہر دکھانے کے موقع نہ دیا۔ اسکا نظام حکومت فوجی نوعیت کا تھا ۔ اہم صوبوں اور شہروں میں فوج متعین تھی۔ انتظام و انصرام کے لیے عموماًفوجی افسر مقرر ہوئے تھے۔ عدل و انصاف کے لیے ہر صوبہ میں قاضی مقرر تھے۔ جرائم کی سزائیں سخت تھیں۔ اس لیے اسکے عہد میں مکمل امن و امان رہا۔ احکام شریعت کے پابند ہونے کیوجہ سے لگان اراضی جو پہلے پیداوار کا پانچواں حصہ تھی قطب الدین کے عہد میں دسواں حصہ مقرر کی گئی جس سے رعایا خوش حال اور فارغ البال ہو گئی۔

اس زمانے میں امراء میں چوگان کا کھیل بڑا مقبول تھا اور قطب الدین کو بھی چوگان کا بڑا شوق تھا۔ یہی شوق اسکی موت کا باعث ہوا۔ چنانچہ1210ء میں لاہور میں چوگان کھیلتے ہوئے گرا اور اپنے گھوڑے کے نیچے دب گیا۔ گھوڑے کی زین کا پیش کوہہ سلطان کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس کے جانشین سلطان شمس الدین التمش نے 1217ء میں ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کرایا۔ تاہم رنجیت سنگھ کے عہد میں اسے مسمار کرا دیا گیا۔ برٹش دور میں لاہور میں آبادی کا اضافہ ہوا تو مقبرہ آبادی میں گھر گیا۔ پاکستان بننے کے بعد محکمہ آثار قدیمہ نے قبر سے متصلہ تمام مکانات کو خرید کر قبر کے احاطہ کو واگذار کرایا اور 1927ء میں مقبرہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ انار کلی بازار سے میو ہسپتال کی طرف جانے والی گلی میں یہ مقبرہ مرجع خلائق ہے۔ سلطان قطب الدین کو علوم و فنون کے علاوہ فن تعمیر سے بھی خاص لگائر تھا۔ 1193ء میں دہلی کی فتح کی یادگار میں مسجف قبتہ الاسلام یا مسجد قوة الاسلام تعمیر کرائی۔ قطب الدین مینار کی بنیاد رکھی جو بعد میں سلطان التمش نے مکمل کروائی ۔

بشکریہ جیو اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

شیخ نور محمد

شاہ حسین (1539-1594)