• صارفین کی تعداد :
  • 2349
  • 1/3/2010
  • تاريخ :

دہشت گردی پاکستان کے لئے ایک بڑا چیلنج

پاکستان کا جهنڈا

پاکستان کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج در پیش ہے وہ دہشت گردی ہے کہ جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے انسداد کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جانے اور قبائلی علاقوں میں باقاعدہ فوجی آپریشن کے دعوے کئے جاتے ہیں اور اخبارات میں آئے دن طالبان دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے آتی ہیں، لیکن ایک عام شہری ان اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتا اور اس سلسلے میں عام  تصور یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بڑی اور گہری سازش کا پیش خیمہ ہے، متعلقہ حکومتی اہلکار بشمول وزیر داخلہ رحمان ملک، امن امان کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن ان کے دعوؤں کے برخلاف، صورتحال میں بظاہر کوئی تبدیلی آتی دکھائی نہیں دیتی۔ محرم الحرام میں مجالس عزا اور جلو سوں کی سیکورٹی کے لئے جس بڑے پیمانے پر صوبائي حکومتوں نے اقدامات کئے تھے وہ قابل تحسین ہیں اور عوام کی جانب سے انہیں کافی سراہا گیا ہے لیکن ایک بات پر سب متفق تھے اور ہیں کہ دہشت گردی یا مبینہ خودکش حملوں کی روک تھام اس لئے ممکن نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ، امریکہ کے ایما پر لڑی جا رہی ہے اور امریکہ اس کام میں مخلص نہیں ہے اور اس کی دوغلی پالیسیاں اس بات کا موجب بن رہی ہیں کہ پاکستان سیاسی اور سماجی لحاظ سے ایسی ابتری کا شکار ہو کر رہ گیا ہے کہ جو دراز مدت میں پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے اور یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا اظہار خود پاکستانی حکام بھی کرتے رہے ہیں۔ سابق سویت یونین کے خلاف جنگ کے بہانے امریکہ نے پاکستان میں قدم رکھے اور صدر وقت پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کا آگے بڑھ کر خیر مقدم کیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کے خفیہ محکموں کے اہلکار، جاسوس ادارے، اور بدنام زمانہ بلیک واٹر جیسی تنظیم کے سینکڑوں ملازم اس طرح سے دنداتے پھر  رہے ہیں کہ جیسے  پاکستان کوئی مقبوضہ ملک ہو۔  پکڑے بھی جاتے ہیں تو چھوڑ دیئے جاتے ہیں بہرحال اس وقت طالبان ہوں یا بلیک واٹر، القاعدہ ہو یا مقامی دہشت گرد تنظیمیں اگر باریک بینی سے ان کی کارکردگي کا مشاہدہ کیا جائے تو سب کی سب ایک ہی ہدف کو اپنے پیش نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ ہے امریکہ کی خدمت! امریکہ اس وقت افغانستان اور عراق پر قابض ہے اور پاکستان کو اس نے اس طرح سے اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے کہ وہ ایک مقبوضہ ملک کی تصویر پیش کر رہا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں عراق یا افغانستان کی طرح باوردی امریکی فوجی کہیں نظر نہیں آتے۔

دہشت گردی پاکستان  میں

 یہی وہ تلخ حقائق ہیں کہ جن کے پیش نظر طالبان اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی حکومت کے اقدامات اور فوجی آپریشن کو شکوک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔  یوم عاشور پر کراچی کے مرکزي جلوس میں ہونے والے دھماکے اور اس کے بعد اس علاقے میں واقع بڑی مارکیٹوں میں منتظم انداز میں آگ لگانے کا واقعہ کئی ایسے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ جن کی موشگافی کی ضرورت ہے ۔ دھماکے کے فورا" بعد اسے خودکش حملہ قرار دیدیا گيا اور دھماکے میں جاں بحق ہونے والے رینجرز کے اہلکار کو ستارہ جرات سے نوازے کا اعلان کر دیا گیا کہ جس نے مبینہ طور پر خودکش بمبار کو پکڑنے کی تھی کوشش کی لیکن اب وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ خودکش نہیں تھا۔ دوسری طرف معمول کے برخلاف بڑی مارکیٹوں میں لوٹ مار اور آتشزنی کے واقعات کو ملاکر دیکھا جائے تو جو تصویر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس دھماکے کے ذریعے سینکڑوں عزاداران حسینی کو خاک وخون میں غلطاں کردیا گیا اور اس کے بعد مارکیٹوں میں آتش زنی اور لوٹ مار کے واقعات کے الزام میں جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا وہ بھی شیعہ برادری کے لوگ تھے، اور یہ اس واقعے کا ایسا المناک پہلو  ہے کہ جس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی ۔

دہشت گردی پاکستان  میں

 شیعہ علما اور عمائدین کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ مجالس عزا اور جلوسوں پر پابندی سے متعلق سازشوں کا ایک حصّہ ہے اور اس طرح کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا، پاکستان میں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم میں عاشورہ محرم انتہائي جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں نکلنے والے جلوس ہائے عزا کا باقاعدہ پرمٹ موجود ہے اور تشکیل پاکستان کے وقت سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے اور شیعہ سنی مسلک کے لوگ مل کر ان جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں اور اگر کبھی کسی موقع پر کوئی واقعہ ہوا بھی تو اسے مذہبی رواداری اور مفاہمت کے ذریعے حل کرلیا گيا ۔ جلوسوں پر پابندی یا انہیں محدود کرنے کی ریت سابق فوجی حکمراں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پڑی جنہوں نے ملک میں نجدی فکر کو حاکم کرکے پورے ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا ۔ سعودی عرب نے جنرل ضیاء الحق کے اس اقدام دل کھول کرحمایت اور پشتپناہی کی اور آج  خودکش بمباروں اور طالبان دہشت گردوں کی شکل میں جو عنصر پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے وہ جنرل ضیاء الحق ہی کی دین ہے اور اس بات کو سبھی پاکستانی تسلیم کرتے ہیں۔ اس سارے قضیے میں جو بنیادی عنصر ہے وہ خود امریکہ ہے کہ جو  اپنے خاص اہداف مقاصد کے تحت اسلامی دنیا کو بحران سے دوچار رکھنا چاہتا ہے۔ لہذا اسلام کا درد رکھنے والے علما اور دانشور طبقے کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو حقایق سے آگاہ کریں تاکہ امریکہ سمیت کسی بھی اسلام دشمن قوت کی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہوسکے ۔ بہرحال کراچی میں جلوس عزا میں ہونے والے دھماکے اور اس کے بعد صوبے سرحد کے شہر لکی مروت میں خودکش دھماکہ اگرچہ نوعیت اور مقام کے حوالے سے کافی فرق رکھتا ہے، لیکن نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا کہ جس کا سارا فائدہ اسلام دشمن قوتیں اٹھا رہی ہیں لہذا پوری پاکستانی قوم کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھتے ہوئے دشمن کو اس کے ہدف تک نہ پہنچے دیں اور حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قومی مفادات کو مدنظر  رکھے اور کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو حالات کو  بہتری کی طرف لے جانے کی بجائے مزید گھمبیر بنائے ۔

بشکریہ اردو ریڈیو تہران