• صارفین کی تعداد :
  • 2385
  • 3/1/2010
  • تاريخ :

شیخ عبدالکریم حائری یزدی

شیخ عبدالکریم حائری یزدی

کرامات حق

یزد سے ۶۰ کلومیٹر کی دوری پر مہرجرد نامی ایک گاؤں ہے وہاں ایک پاک دل و پرہیز گار بزرگ بنام محمد جعفر رہا کرتے تھے جنھیں سب ان کے تقوی و بزرگی کے سبب سے پہچانتے تھے۔

اپنے آباؤ اجداد کی طرح وہ بھی زراعت پیشہ تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ محمد جعفر جب جوان ہوئے تو اسی گاؤں میں شادی کرکے نئی زندگی کی شروعات کی اور اولاد کا انتظار کرنے لگے مگر ان کی امید پوری نہیں ہوئی شادی کے برسوں بعد جب جوانی گزر گئی اور کیف و نشاط کا زمانہ ختم ہو گیا تب بھی محمد جعفر بے اولاد ہی رہے۔ اس غم نے انھیں ایسا گھیرلیا کہ زندگی ان کی نگاہوں میں تاریک ہوگئی ایک طرف جوانی کا گزر جانا دوسری طرف اولاد کی خواہش، ان دونوں باتوں نے ان کی زندگی تلخ کر رکھی تھی آخر کار انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ دوسری شادی کرلیں گے اور انہوں نے اپنی غم زدہ بیوی سے رضا مندی بھی حاصل کر لی اس کے بعد ایک بیوہ  عور ت سے جو ایک بچی کی ماں بھی تھی نکاح کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اسی جب وہ اس بیوہ کے گھر میں داخل ہو رہے تھے عجیب اتفاق یہ ہوا کہ محمد جعفر کی آنکھ  اس ننھی سی یتم پر پڑ گئی جو ایک گوشہ میں بیٹھی رو رہی تھی اور آنسو اس کی آنکھوں سے ڈھل کر رخسار پر بہہ رہے تھے۔ محمد جعفر اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور فورا وہاں سے اپنے گھر لوٹ آئے۔

نماز کا وقت آگیا تھا جلدی جلدی مسجد پہونچے اور درگاہ احدیث میں دل شکستہ و پریشان حال حاضر ہو گئے اور دست دعا بلند کر کے یوں گویا ہوئے :

” خدایا میں اب اولاد کی خاطر کسی کے گھر نہ جاؤں گا۔ کہیں ایسا نہ کہ کسی یتیم کی دل شکنی ہو جائے میں اپنی زندگی تیرے حوالے کرتا ہوں تو مجھے فرزند عطا کرسکتا ہے ۔ بارالٰہا اگر تو میری اسی عورت سے بچہ دینا چاہتا ہے تو مرحمت فرما اور اگر تیری منشا یہ ہے کہ میں لاولد رہوں تب بھی میں تیری رضا پر راضی رہوں گا۔“

محمد جعفر کی زندگی میں وہ دن نہایت پرمسرت و مبارک تھا جب کہ ان کی دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اس طرح (۱۲۶۷ھ ) میں ان کا پاک و پاکیزہ مکان ایک ننھے منھے بچے کے نور جمال سے منور ہو گیا اور مہرجرد کے باشندوں کے لئے یہ غیر معمولی واقعہ بہت زیادہ خوشی و حیرت کا موجب ہوا ۔

بچے کے باپ نے جو اس بچے کو کرامت پرودگار مانتا تھا بچہ کا نام عبدالکریم رکھا اور عبدالکریم بھی آخر کار برسوں بعد بندگان خدا پر فیض و کرامت الٰہی کی بارش کا وسیلہ بنا۔

عشق پنہاں

عبدالکریم نے مادر مہربان کے پر شفقت سایہ میں چھ سال گزارے اس کے بعد مدرسہ جانے کا وقت آیا کیونکہ وہ ابتداء ہی سے لکھنے پڑھنے سے بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ اور کبھی کبھی اس خواہش کو باپ کے سامنے ظاہر بھی کرتا ر ہتا تھا مگر باپ با وجودیکہ بیٹے کو تعلیم دینا چاہتا تھا پھر بھی کچھ نہ کر سکا کیونکہ اس وقت مہرجرد میں مکتب و مدرسہ تھا ہی نہیں اور بچے کھیتی کسانی کا کام کرکے، مویشی چرا کے یا اپنے باپ کے ہنر و پیشہ میں ہاتھ بٹا کر جوان ہو جایا کرتے تھے۔ عبدالکریم بھی اسی دیہات کے ایک نونہال تھے ان کے پاس بھی اس کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا لہٰذا مجبوری تھی۔ چنانچہ اسی عالم میں ایک زمانہ گزر گیا اور عبدالکریم مہرجرد کے گاؤں میں دن کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ ایک دن ان کے رشتہ داروں میں سے ایک شخص بنام محمد جعفر معروف بہ میر ابو جعفر آگئے جو خود عالم تھے اور روحانی لباس پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس بچہ کو پہلی نظر میں تاڑ لیا اور اس کی چھپی ہوئی ذہانت و صلاحیت و غیر معمولی استعداد کو دیکھ کر اس کی تعلیم ذمہ دار اپنے سر لے لی۔ ماں باپ کی رضا مندی حاصل کر کے عبدالکریم کو اردکان لے گئے اور مکتب میں بٹھا دیا ۔
ان دنوں ” اردکان“ کی علمی حیثیت اس زمانے جیسی نہیں تھی جب کہ وہ چھوٹا یونان کہلاتا تھا کیونکہ فقہاء و علمائے اسلام نے اس قصبہ سے ہجرت کر کے آہستہ آہستہ حوزہ علمیہ نجف و یزد کو آباد کر لیا تھا اس کے باوجود یہاں علم کا چراغ خاموش نہیں ہوا تھا اور ابتدائی علوم و ادبیات و قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا۔

عبدالکریم نے اس اجنبی شہر میں چند سال رفت و آمد کر کے گزارے ۔ دن کو وہ اساتذہ کے درس میں جاتے اور رات ابو جعفر کے گھر میں بسر کرتے تھے اور شب جمعہ کو  والدین سے ملاقات کرنے کے لئے مہرجرد کا راستہ پکڑ لیتے یہ چند سال عبدالکریم نے تکلیف و سختی میں کاٹے مگر جب مدتوں بعد وہ مقام مرجیعت کو پہنچے اور استاد معلم مانے جانے لگے تو اپنی کامیابی کو میرابو جعفر کے ایثار و فدار کاری کا مرہون بتاتے اور شہر اردکان میں مکتب کے ایام کا زمانہ ذکر بہت لذت لے کر کرتے تھے.

اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

آیة اللہ  شیخ ھادی معرفت