• صارفین کی تعداد :
  • 3054
  • 6/17/2010
  • تاريخ :

حضرت سیدنا علی بن حمزہ بن امام موسیٰ کاظم

بسم الله الرحمن الرحیم

شاہ چراغ (شدت ضربِ شیر خدا اور ہے)

شاہ چراغ،سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم ( شیراز آمد)

شاہ چراغ، سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم

عنایات شاہچراغ

حضرت شاہ چراغ کے بھتیجے سیدنا میر علی بن حمزہ بن امام موسیٰ کاظم معرکۂ شیراز میں شدید زخمی ہو کر پہاڑ کی جانب نکل گئے ۔ شیراز کے صبوی پہاڑ کے دامن میں پہنچے تو زخموں کی بے اندازہ تکلیف اور بدن مبارک سے بہت زیادہ خون بہہ جانے کے باعث کمزور ہو کر گر پڑے ۔ اس پہاڑ کے ایک غار میں صاحب تقویٰ بزرگ، علی المعروف بابا کوہی دنیا سے کنارہ کش ہو کر کئی برسوں سے عبادت اور یاد الٰہی میں محو تھے ۔ اس روز کسی ضرورت کے تحت پہاڑ کے دامن میں آئے ۔ سیدنا علی کو شدید زخمی اور انتہائی مجبور حالت میں دیکھ کر نظر باطن سے پہچان گئے کہ یہ انمول موتی سلسلۂ امامت کے جواہرات میں سے ہے ۔

امامزادے کو پشت پہ رکھ کے اپنی خانقاہ لے گئے اور پورے عزم سے شہزادے کی خدمت کے لئے کمر ہمت باندھ لی ۔ تین ماہ کی خدمت گزاری بار آور ہوئی اور امامزادہ علی بن حمزہ کے زخم ٹھیک ہو گئے ۔ آپ مسلسل سات سال شیخ کے ساتھ  رہے اور شیخ نے تمام تر توجہ شہزادے کی خاطر داری اور خدمت گزاری پہ مرکوز کر لی ۔ ایک دن چراغ میں جلنے والا تیل ختم ہو گیا ۔ شیخ کوہی نے کہا کہ ڈبہ لے کر شہر سے تھوڑا سا تیل لے آئیں تا کہ چراغ جلائیں ۔ شہزادے نے ڈبہ لیا اور دامن کوہ میں آئے ۔ وہاں پانی کا چشمہ تھا ۔ ڈبہ پانی سے بھرا اور واپس خانقاہ تشریف لے گئے ۔ اس رات وہی پانی تیل کی طرح چراغ میں جلتا رہا ۔ شیخ کوہی نے یہ دیکھ کر کہا: ’’میرے سید! آپ میرے آقازادے ہیں، کرامت آپ کی اور آپ کے خاندان کی برحق ہے ۔ خارق عادت امور آپ کے شایان شاں ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ تکلیف کر کے شہر جائیں اور چراغ کے لئے تھوڑا سا تیل لے آئیں ۔ اس پر آپ کو اجر ملے گا ۔ لوگوں کے پانی سے اجتناب فرمائیں ‘‘۔

صبح امامزادے نے ڈبہ لیا اور شہر کی جانب روانہ ہوئے ۔ شہر پہنچ کر تیل حاصل کیا ۔ واپس روانہ ہونے لگے تو منافقین کے ایک گروہ نے آپ کے حسن و جمال اور رعب داب دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ جوان کون ہے ؟ معلوم ہوتا ہے کہ خاندان اہلبیت سے ہے ۔ ہم نے سنا ہے کہ بابا کوہی کے  پاس کوئی بوترابی جوان رہتا ہے ۔ گمان غالب ہے کہ یہ وہی جوان ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے شہزادے کو پہچاننے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ جب اچھی طرح پہچان لیا تو شہزادے کے تعاقب میں رستہ بدل کر شہر سے باہر آگئے اور دروازے کے قریب خشک نالہ پر امامزادہ کے قریب پہنچ کر چاروں جانب سے حملہ کرکے سیدنا علی بن حمزہ کو شہید کر دیا۔

آپ کا سر مبارک تن سے جدا کر کے اپنے سردار کے پاس لے جانے کی کوشش کی لیکن خدا کی قدرت کہ سر اتنا بھاری ہو گیا کہ زمین سے ہلا بھی نہ سکے اور نامراد شہر واپس چلے گئے ۔ شیخ کوہی نے شام تک شہزادے کا انتظار کیا لیکن جب شام تک واپس نہ آئے تو پہاڑ سے اتر کر شہر روانہ ہوئے ۔ خشک نالے پر پہنچ کر دیکھا کہ امامزادہ خون میں لت پت شہید پڑے ہیں ۔ شیخ کوہی نے قریب پہنچ کر کہا :  ’’مردان خدا چنیں نخسیند‘ ‘یعنی ’’مردان خدا اس طرح نہیں سویا کرتے ‘‘۔ شیخ کوہی نے یہ کہہ کر شہید امامزادے کا جسد مبارک اٹھا یا اور سر مبارک بغل میں دباکر وہاں تک لے گئے جہاں آپ دفن ہیں ۔ وہاں پہنچ کر زمین پہ گر پڑے ۔ شیخ جان گئے کہ اُن کا مدفن شریف یہی ہے ۔ شیخ نے شہر آکر بیلچہ لیا اور راتوں رات قبر کھود کر دفن کر دیا ۔ رات بھر وہاں ذکر اذکار اور تلاوت کلام پاک میں مصروف رہے ۔ صبح ہونے پر قبر مطہر کی علامت بنا دی ۔

امیر عضدالدولہ کے زمانہ میں اس مزار مقدس پر خوبصورت گنبد تعمیر کروایا گیا۔ آپ کا مستجاب الدعوات، با ہیبت روضہ مبارک شیراز کے دروازۂ اصفہا ن میں جلوہ نما ہے ۔ آپ کے والد سیدنا ابوالقاسم حمزہ بن امام موسیٰ کاظم  کا روضۂ اقدس تہران میں شاہ عبدالعظیم حسنی کے مزار میں ہے ۔ شاہ عبدالعظیم آپ کی تربتِ عالیہ کے مجاور تھے اور وہیں انتقال فرمایا۔ سیدنا ابوالقاسم حمزہ کے تین صاحبزادے تھے ۔ سیدنا علی بن حمزہ کی اولاد نہ تھی ۔ آپ کے دو بھائیوں سیدنا قاسم اور سیدنا حمزہ بن سیدنا حمزہ بن امام موسیٰ کاظم کی اولاد بلاد عجم میں کثیر ہے ۔ سلاطین صفویہ موسویہ اور حاجی سید وارث علی شاہ المعروف وارث پاک، تاجدارِ دیوا شریف انڈیا سیدنا قاسم حمزہ کی اولاد اطہار کے دمکتے ستارے ہیں ۔

                                                                                                                                                                  ختم شد

علمی اخبار ڈاٹ کام