• صارفین کی تعداد :
  • 2915
  • 6/24/2010
  • تاريخ :

سید ابن طاؤوس اور ندیم ابلیس

بسم الله الرحمن الرحیم

  ندیم ابلیس

جب مستنصر بالکل ناکام ہو گیا تو اس نے ایک نیا جال تیار کیا جس سے تمام عذر کے باوجودا بن طاؤوس خلافت کے جال میں گرفتار ہو جائیں خلیفہ کا ہم خیال ہونے کے لئے دوست و دشمن سب نے تائید کی ان تائید کرنے والوں میں موید الدین محمد بن احمد بن العلقمی شیعہ و زیر بھی تھا ابن طاؤوس کے جواب کا اس نے بڑی ہوشیاری سے انکار کیا اورسید ابن طاؤوس کو عہدہ کے لئے تیار کیا اس کی نظر میں اس عہدہ کو قبول کرنے سے سید ابن طاؤوس کے لئے نہ دنیاوی اور نہ معنوی نقصان تھا بلکہ شیعیان علی کے حکومت میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کا بہترین موقع تھا۔

حلہ کے اس مرد مجاہد نے اس منصب کو قبول کرنے میں اپنی ہلاکت کا یقین کر لیا ایک خصوصی ملاقات میں وزیر کے بیٹے کو بیدار کرتے ہوئے فرمایا:

”اگر میں خلیفہ کا ہم نشین بن جاؤں اور اس کا راز تم باپ بیٹے پر فاش نہ کرو تو تم مجھ پر تہمت لگاؤ گے کہ میں نے جو کچھ سنا اسے تمہارے سامنے بیان نہ کیا لہٰذا تم میرے دشمنوں میں ہو جاؤ گے اور دشمنی کا جو انجام ہوتا ہے اسے تم خوب جانتے ہو۔“

واضح رہے کہ یہ باتیں وہ تمام حقیقتیں نہ تھیں جو سید ابن طاؤوس خلیفہ کے متعلق جانتے تھے اور وزیر کے بیٹے کو بتانا بھی نہیں چاہتے تھے لیکن اتنی گفتگو کافی تھی اب دوستوں نے اصرار نہ کیا اس دور اندیش شخص کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا۔

دشمن کا خنجر

مغلوں کی مسلسل کامیابی سے خلیفہ وقت سخت پریشان تھا لہٰذا بادشاہ نے ایک تدبیر سوچی کہ سید ابن طاؤوس کے جو مشہور دانشور تھے سفیر کے عنوان سے مغل بادشاہ کے پاس بھیجے چنانچہ جب خلیفہ کا پیغامبر سید بن طاؤوس کے پاس پہونچا اور انھیں درمیان میں رکھنے کی کوشش کی توسید نے فورا انکار کردیا اور وضاحت کے طور پر کہا:

”اس سفیری کا انجام سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں ہے کیونکہ اگر کامیاب رہا تو مجھے افسوس ہوگا اور اگر کامیاب نہ ہوا تب بھی افسوس ہوگا۔‘

خلیفہ کے ایلچی نے ملتجی ہو کر پوچھا ” وہ کس طرح؟“ صاف گوسید نے جواب دیا:

”اگر خدا کی مرضی شامل حال رہی اور میری کوشش بارآور ہوئی تو تم مجھ سے دست بردار نہیں ہوگے اور میری زندگی کے آخری لحمات تک سفارت کا کام مجھ سے لوگے اور میں عبادت و بندگی سے محروم ہو جاؤں گا اور اگر میں کامیاب نہ ہوا تو میری عزت خاک میں ملادو گے، میرے اوپر سختی و مشکلیں ڈالی جائیں گی لہٰذا میں نہیں چاہتا کہ میری عزت چلی جائے اور مجھے سختیاں برداشت کرنی پڑیں اس وجہ سے مجھے معذور رہنے دو اس کے علاوہ اگر میں سفیر بن جاؤں تو ممکن ہے ہے دشمن یہ افواہ پھیلا دیں کہ ابن طاؤوس مغل بادشاہ کے پاس اس لئے گئے ہیں تاکہ ان سے مل کر سنی بادشاہ کو (مستنصر ) کو سرنگوں کریں اور تم بھی اس افواہ کو صحیح جان کر میرے دشمن بن جاؤ اور مجھے قتل کردو۔“

بعض حاضرین مجلس نے کہا:

”آپ کے پاس کیا بہانہ ہے جب کہ یہ خلیفہ کا حکم ہے؟“

سید ابن طاؤوس نے ہمیشہ کی طرح جواب دیا:

” میں خدا سے مشورہ کروں گا اس لئے کہ تمہیں معلوم ہے میں کوئی بھی استخارہ کے بغیر نہیں اٹھاتا ۔“

آپ نے سب کے سامنے قرآن مجید کھولا اور آیت تلاوت کی جس میں صاف صاف تھا کہ یہ سفر نہیں ہے ۔ اب تمام لوگوں پر واضح ہوگیا کہ خلیفہ کے فرمان کوکس وجہ سے قبول نہیں کر رہے ہیں۔ (سید ابن طاؤوس نے خلیفہ سے پہلے ہی خراسان کے سفر کی اجازت لے لی تھی لیکن اب اس کے بعد اس سفر سے بھی منصرف ہوگئے)

اسلام ان اردو  ڈاٹ  کام


متعلقہ تحریریں:

سید بن طاؤوس ( تحصیل نور)

سید بن طاؤوس (طائر قفس)