• صارفین کی تعداد :
  • 2852
  • 7/14/2010
  • تاريخ :

طولانی غیبت

حضرت مھدی (عج)

علامات ظھور كے ذیل میں ابھی یہ تذكرہ كر چكے  ہیں كہ ظلم و استبداد كی ھمہ گیری كسی عالمی مصلح كی آمد كی خبر دے رھی  ہے۔ شب كی سیاھی سپیدۂ سحری كا مژدہ سنا رھی  ہے۔

اس صورت میں ایك سوال ذھن میں كروٹیں لیتا  ہے اور وہ یہ كہ جب ظلم اتنا پھیل چكا  ہے تو ظھور میں تاخیر كیوں ھو رھی  ہے؟ استبداد كی ھمہ گیری كے باوجود غیبت طولانی كیوں ھو رھی  ہے؟

اس سوال كے جواب كے لئے یہ باتیں قابل غور  ہیں ۔

(1) گزشتہ انبیاء اور رسولوں كے انقلاب كی طرح حضرت مھدی (عج) كا انقلاب بھی طبیعی علل و اسباب پر مبنی ھوگا۔ اس انقلاب كی كوئی اعجازی شكل و صورت نہ ھوگی۔ معجزات تو خاص خاص صورتوں سے مخصوص ہیں ۔ جس طرح پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی 23 سالہ تبلیغی زندگی میں خاص مواقع كے علاوہ ھر جگہ عام علل و اسباب سے كام لیا  ہے۔

اسی لئے ھمیں ملتا  ہے كہ انبیاء علیہم السلام اپنے مشن كی تبلیغ و توسیع میں روزمرّہ كے وسائل سے استفادہ كرتے تهے مثلاً افراد كی تربیت، مسائل میں مشورہ، منصوبہ كی تشكیل، جنگ كے لیے نقشہ كشی خلاصہ یہ كہ ھر مادی اور معنوی وسائل سے استفادہ كرتے اور اسی سے اپنے مشن كو آگے بڑھاتے تهے۔ وہ میدان جنگ میں ھاتھ پر ھاتھ دھرے كسی معجزے كا انتظار نہیں كرتے تهے، بلكہ خدا پر بھروسہ كر كے اپنی طاقت سے جنگ لڑتے تهے اور كامیاب ھوتے تهے۔

اسی طرح حضرت مھدی (عج) اپنے عالمی انقلاب میں روز مرہ كے وسائل سے استفادہ كریں گے۔ الٰہی منصوبوں كو عملی بنائیں گے ان كا كام الٰہی پیغام كی تبلیغ ھی نہیں بلكہ وہ الٰہی احكام كو ان كی صحیح شكل میں نافذ كریں گے۔ وہ دنیا سے ھر طرح كا ظلم و جور كا خاتمہ كردیں گے اتنا بڑا كام صرف یونہی نہیں ھوجائے گا بلكہ اس كے لئے بہت سی چیزیں ضروری  ہیں ۔

(2) گذشتہ بیان سے یہ بنیادی بات واضح ھوگئی كہ انقلاب سے پہلے بعض چیزوں كا وجود ضروری ہے۔ عوام میں كئی اعتبار سے آمادگی دركار  ہے۔

ایك: قبولیت

دنیا كی نا انصافیوں كی تلخیوں كو دنیا والے باقاعدہ احساس كریں۔ انسان كے خود ساختہ قوانین كے نقائص اور اس كی كمزوریوں كو بھی سمجهیں ۔

لوگوں كو اس حقیقت كا باقاعدہ احساس ھوجائے كہ مادی قوانین كے سایہ میں حیاتِ انسانی كو سعادت نصیب نہیں ھو سكتی ہے۔ انسان كے خود ساختہ قوانین كے لئے كوئی "نفاذی ضمانت" نہیں  ہے بلكہ انسان كے خود ساختہ قوانین مشكلات میں اضافہ كرتے  ہیں كمی نہیں۔ یہ احساس بھی ھونا چاھئے كہ موجودہ افراتفری كا سبب خود ساختہ نظام ھائے حیات  ہیں ۔

لوگوں كو اس بات كا بھی احساس ھونا چاھئے كہ یہ دنیا اسی وقت سدھر سكتی  ہے جب میں ایسا نظام نافذ ھوگا جس كی بنیاد معنویت، انسانی اور اخلاقی اقدار پر ھو، جہاں معنویت اور مادیت دونوں كو جائز حقوق دیے گئے  ہوں۔ جس میں انسانی زندگی كے تمام پہلوؤں كو بہ حد اعتدال سیراب كیا گیا ھو۔

اسی كے ساتھ ساتھ یہ بھی باور ھوجائے كہ صنعت اور ٹكنالوجی كے میدانوں میں چشم گیر اور حیرت انگیز ترقیاں انسان كو سعادت عطا نہیں كر سكتی ہیں۔ البتہ شقادت ضرور تقسیم كر سكتی ہیں ۔ ھاں اس صورت میں ضرور مفید ثابت ھو سكتی ہیں جب یہ ترقیاں معنوی، انسانی اور اخلاقی اصولوں كے زیر سایہ حاصل كی جائیں۔

مختصر یہ كہ جب خوب تشنہ نہیں  ہوں گے اس وقت تك چشمہ كی تلاش میں تگ و دو نہیں كریں گے۔

یہ تشنگی كچھ تو رفتہ رفتہ وقت گذرنے سے حاصل ھوگی اور كچھ كے لیے تعلیم و تربیت دركار ھوگی، یہ دنیا كے مفكرین كا كام  ہے كہ ھر ایك میں یہ احساس بیدار كردیں كہ انسان كے خود ساختہ قوانین دنیا كی اصلاح نہیں كر سكتے ہیں بلكہ اس كے لئے ایك عالمی انقلاب دركار  ہے۔ بہر حال اس میں وقت لگے گا۔

دو۔ ثقافتی اور صنعتی ارتقاء

ساری دنیا كے لوگ ایك پرچم تلے جمع ھوجائیں، حقیقی تعلیم و تربیت كو انتا زیادہ عام كیا جائے كہ فرد فرد اس بات كا قائل ھوجائے كہ زبان، نسل، علاقائیت… ھرگز اس بات كا سبب نہیں بن سكتے كہ تمام دنیا كے باشندے ایك گھر كے افراد كی طرح زندگی بسر نہ كرسكیں۔

دنیا كی اقتصادی مشكلات اسی وقت حل ھو سكتی ہیں جب ثقافت اور افكار میں ارتقاء اور وسعت پیدا ھو۔ اسی كے ساتھ صنعت بھی اتنا ترقی یافتہ ھو كہ دنیا كا كوئی گوشہ اس كی دسترس سے دور نہ ھو۔

بعض روایتوں سے استفادہ ھوتا  ہے كہ حضرت مھدی (عج) كے ظھور كے بعد صنعت خاص طور پر ٹرانسپورٹ اتنی زیادہ ترقی یافتہ ھوجائے گی كہ یہ وسیع و عریض دنیا نزدیك شھروں كے مانند ھو جائے گی۔ مشرق و مغرب میں بسنے والے اس طرح زندگی بسر كریں گے جس طرح ایك گھر كے افراد زندگی بسر كرتے  ہیں ۔

ظھور كے بعد ھو سكتا  ہے كہ ترقیاں انقلابی صورت میں رونما  ہوں مگر اتنا ضرور  ہے كہ ظھور كے لئے علمی طور پر آمادگی ضروری  ہے۔

تین: انقلابی گروہ

ایسے افراد كی موجودگی ضروری  ہے جو انقلاب میں بنیادی كردار ادا كرسكیں، ایسے افراد كی تعداد كم ھی كیوں نہ ھو، مگر عملی اعتبار سے ھر ایك بھرپور انقلابی ھو اور انقلابی اصولوں پر جی جان سے عامل ھو، غیر معمولی شجاع، دلسوز، فداكار، جانباز اور جاں نثار ھو۔

اس دھكتی ھوئی دنیا اور خزاں رسیدہ كائنات میں ایسے پھول كھلیں جو گلستاں كا مقدمہ بن سكیں جو بہار كا پیش خیمہ ھو سكیں۔ انسانوں كے ڈھیر سے ایسے عالی صفت افراد نكلیں جو آئندہ انقلاب كی مكمل تصویر  ہوں۔

ایسے افراد كی تربیت خود معصوم رھبر كے سپرد ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسے افراد كی تربیت كا انتظام كریں۔ چونكہ ھر كام معجزے سے نہیں ھوگا، لھٰذا یہاں بھی وقت دركار  ہے۔

بعض روایتوں میں حضرت مھدی (عج) كی غیبت كے طولانی ھونے كا سبب یہ بیان كیا گیا ہے كہ خالص ترین افراد سامنے آجائیں، جو ھر طرح كے امتحانوں میں كامیاب ھوچكے  ہوں۔

اس بات كی وضاحت كی ضرورت  ہے كہ الٰہی امتحان اور آزمائش كا مطلب ممتحن كے علم میں اضافہ كرنا نہیں ہے بلكہ امتحان دینے والوں كی پوشیدہ صلاحیتوں كا اظھار  ہے یعنی وہ استعداد جو قوت كی منزل میں ہے اسے فعلیت عطا كرنا  ہے۔

گذشتہ بیان سے یہ بات كسی حد تك ضرور واضح ھوگئی كہ حضرت مھدی (عج) كے ظھور میں تاخیر كیوں ھو رھی ہے تاخیر كا سبب ھمارے نواقص اور كمزوریاں ہیں، ورنہ اس طرف سے كوئی تاخیر نہیں ہے۔ جس وقت ھم اپنے نواقص كو ختم اور كمزوریوں كو دور كرلیں گے اس وقت ظھور ھوجائے گا۔ جس قدر جلد ھم اس مقصد میں كامیاب ھوجائیں گے اتنا ھی جلد ظھور ھوگا۔


متعلقہ تحریریں:

ظھور كی علامتیں

ظھور كی علامتیں (حصّہ دوّم)

ظھور كی علامتیں (حصّہ سوّم)