• صارفین کی تعداد :
  • 1236
  • 12/25/2010
  • تاريخ :

امریکیوں کا ڈراؤنا خواب

مرگ بر آمریکہ

امریکی قوم اور امریکی قیادت تقریباً پچاس سال سے خوف کی نفسیات کا شکار ہے۔ اس خوف نے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں کے اندر سرایت کرنا شروع کیا ۔ یورپ کی تباہی جو نازیوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اس نے انہیں خوف کی چادر میں لپیٹنا شروع کیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ مزید بڑھ گیا۔ کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات جو یورپ، ایشیا اور افریقہ میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے تھے ان کے لئے ناقابل برداشت تھے۔ وہ نئی امریکی نسل کیلئے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کرتے جا رہے تھے۔ امریکی یہ سوچنے میں لگے تھے کہ کیا وہ اس کیفیت پر ہاتھ دھر کے بیٹھ جائیں لیکن وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنا آنے والی امریکی نسلوں کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا ۔

وہ امریکی جن کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہوتا ہے وہ عام طور سے مذہب کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں اور جن کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہوتا ہے۔ وہ لبرل اور سیکولر رویوں کی طرف مائل ہوتے ہیں چنانچہ یہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہے کہ کمیونزم سے خوفزدگی بہت تیز رفتاری سے ریپبلکن صدور کے دور میں بڑھی اور اس نے نظریاتی ٹکراؤ کی شکل اختیار کر لی۔ یورپ مغربی یورپ اور مشرقی یورپ میں تقسیم ہوگیا۔ مشرقی یورپ جو اشتراکیت کا علمبردار تھا مغربی یورپ کیلئے بڑا خطرہ بنتا جا رہا تھا دوسری طرف اشتراکیت ایشیا اور افریقہ کے اہم ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی روس کا ایٹمی قوت بننا امریکی بالا دستی کے نظریات کے لئے بڑا چیلنج ہوگیا تھا ۔

غیر جانبدار ملکوں نے امریکی سیاسی نظریات کو اپنے عروج کے دور میں بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ ایشیا اور افریقہ میں بھارت، انڈونیشیا ، مصر ،الجزائر جیسے اہم ممالک روس کے ساتھ تھے اور اشتراکی نظریات تیزی سے افرو ایشین ممالک میں پھیل رہے تھے اور امریکیوں کے ذہن یہ سوچ رہے تھے کہ گو وہ دنیا کی دوسری طرف ہیں لیکن ان کی سلامتی،تحفظ اور خیر و عافیت خطرے میں ہے۔

کبھی وہ اشتراکی ملکوں اور ان کے حامیوں کے خلاف دفاعی حصار کی پالیسی اختیار کرتے ،کبھی انہیں کمزور کرنے کیلئے سازشوں کا جال بچھاتے اور جب وہ مستقل طور پر اپنے آپ کو ناکام ہوتے دیکھتے تو دیتانت کی پالیسی کو متعارف کراتے۔ لیکن اشتراکیت کا طوفان رکنے میں نہ آتا تھا اسی کشمکش میں امریکا اور اس کے نظریاتی حامیوں کو ویت نام میں اپنی طاقت آزمانے کا موقع مل گیا امریکا ویت نام جنگ میں کود پڑا ۔ ویت نام کی جنگ میں اسے ہزیمت و شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی سپر پاور کی حیثیت اور اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور کمیونزم سے خوفزدگی کا احساس تیزی سے بڑھنے لگا۔

امریکہ کیلئے 70کا عشرہ ایک ایسے دباؤ اور ناکامیوں کا عشرہ تھا کہ عالمی سیاست کی بساط الٹتی نظر آ رہی تھی۔ برزنیف ڈاکٹر این نے امریکا کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسے میں روس نے ایک اسٹرٹیجک بلنڈر کی اور افغانستان میں مداخلت شروع کردی اور اپنی افواج افغانستان میں داخل کردیں جس کے نتیجے میں روسی کمیونسٹ ایمپائر کا خاتمہ ہوگیا ۔ اس کے ساتھ ہی سرد جنگ کا دور ختم ہوگیا اور کمیونزم کا خوف بھی جاتا رہا ۔ سرمایہ داری نظام نے اشتراکی نظام کو تقریباً ایک بالا دست قوت اور نظریئے کے ختم کر دیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اشتراکی نظریات کو شکست ” اسلامی مجاہدین“ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔یہ ایک انسانی نظریئے کی شکست تھی جو ایک خدائی ضابطے کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ اس سے امریکا میں یہودی لابیوں اور انتہا پسندوں کو وہ الارم بجتا نظر آیا جو وہ سمجھتے تھے کہ اگر اس جہادی جذبے کو ختم نہ کیا گیا تو یہ سرد جنگ اور کمیونزم سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہو گا ۔ اب ایک اور واقعہ اپنے ظہور کا منتظر ہے۔افغانستان کی تبدیلیوں سے امریکا کی پریشانی بڑھ رہی تھی انتہا پسندوں اور امریکہ مخالف مزاحمت کو تباہ کرنے کیلئے عراق پر حملہ کیا گیا اور ضرورت سے بہت زیادہ فوجی طاقت کا استعمال کرکے ایک ڈمی قوت کو ختم کردیا گیا ۔9/11کے بعد ایک نیا عنصر سامنے آیا اور وہ القاعدہ فیکٹر تھا۔ القاعدہ کی قیادت افغانستان میں تھی اور امریکی حکومت طالبان قیادت پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ القاعدہ قیادت کو اس کے حوالے کر دے لیکن طالبان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر ثبوت فراہم کئے جائیں تو وہ شفاف طریقے سے القاعدہ کی قیادت پر مقدمہ چلانے کو تیار ہیں۔ امریکا نے بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھا کر سلامتی کونسل سے ایک ریرزولوشن پاس کرایا اور افغانستان پر حملے کا راستہ ہموار کیا۔ امریکا اور اس کے حلیف تقریباً نو سال سے افغانستان میں پوری فوجی قوت اور وسائل کے ساتھ جنگ جاری کئے ہوئے ہیں جس کو وہ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جب وہ نو سال میں ٹارگٹ کے قریب نہیں پہنچ سکے تو تین چار سال میں کیا حاصل کر سکیں گے۔

اندازہ یہ ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان پر ہر قسم کا دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکا کی ترجیحات افغانستان اور اس علاقے میں کچھ اور ہیں اور پاکستان کی ترجیحات کچھ اور جن کو امریکا خاطر میں نہیں لا رہا۔ صدر اوباما اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہے ہیں جو زمینی حقائق کے خلاف ہیں ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ افغان جنگ مشکل ہے۔ میں یہ کہتا ہوں یہ مزید مشکل ہونے جا رہی ہے میں اس کی وجوہات اور طالبان کی تبدیل ہوتی ہوئی وار اسٹرٹیجی کے بارے میں لکھتا رہا ہوں۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت ایک ہوکر امریکا کے ناجائز دباؤ کا مقابلہ کرے۔ مسئلے کا حل جنگ نہیں مذاکرات میں ہے۔ اس حقیقت کو ہالبروک نے سمجھ لیا تھا۔

وکی لیکس نے یہ انکشاف کیا کہ صدر اوباما پاکستان کو ڈراؤنا خواب سمجھتے ہیں شاید اسی لئے وہ پاکستان کو معاشی اعتبار سے تباہ کرنا چاہتے ہیں یہ اختلافات کو منجمد کرنے کا وقت ہے۔ پاکستان کے گرد ایک ناقابل عبور فصیل کھڑی کرنے کا وقت ہے۔ چینی وزیر اعظم کا دورہ پاکستان امریکی دباؤ کا رخ موڑ سکتا ہے اور پاکستان کو امریکی دباؤ سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے۔

بس ذرا ہمت اور عقل و دانش کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے پاکستان صدر اوباما کے ڈراؤنے خواب کو امن و خوبصورتی میں بدل سکتا ہے اور آنے والے وقت کو بچا سکتا ہے جو امریکی حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے افغانستان میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

بشکریہ : سلیم یزدانی ( روزنامہ جنگ پاکستان )