• صارفین کی تعداد :
  • 1935
  • 1/16/2011
  • تاريخ :

ہم لڑ رہے ہیں آج بھی فوج یزید سے

اہل بیت اطہار

میں آج اپنے کالم کا آغاز صفدر ہمٰدانی صاحب کے صرف ایک  مشہورِ زمانہ شعر سے  کر رہا ہوں

کہتا ہے کون ختم ہوئی کربلا کی جنگ

ہم لڑ رہے ہیں آج بھی فوج یزید سے

اور جب یزیدیت اور حسینیت کی جنگ تا قیامت جاری رہنے والی ہے ، خواہ یہ انفرادی صورت میں ہو چاہے اجتماعی میں ، تو پھر کشت و خون کا درس کیا اور طعنہ کیسا ؟ یہ عقل اور عشق کی لڑائی ہے ، عقل ہمیشہ دانا جبکہ عشق ہمیشہ اندھا ہی ہوتا ہے ۔ عقل آگ کی تپش اور جلن کے اثرات کا اندازہ لگاتی رہ جاتی ہے جبکہ عشق بے خطر اس میں کود جاتا ہے اور غازی علم الدین سے لے کر ممتاز حسین قادری تک سر پھرے عشاق اپنے محبوب کی حرمت پہ ہمیشہ مٹتے آئے ہیں اور تا قیامت یوں ہی مٹتے رہیں گے ، بے شک انہیں عقل کے کتنے ہی درس دے دئیے جائیں۔

دوستوں  نے آقا علیہ السلام کی زندگی کے حوالہ جات دئیے ، جن کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پیغمبر کا ہر عمل اپنے رب کی ہدایات کے تابع ہوتا ہے ۔ ان پہ آنے والی مشکلات ان کا امتحان بھی ہو سکتی ہیں اور پھر اسے بڑھ کر یہ کہ جب خدائے ذوالجلال نے واضح الفاظ میں فرما دیا ، ” وما ارسلنٰک اِلا رحمت اللعٰلمیں “ تو پھر آپ (ص) سے کسی سے بدلہ لینے کی توقع کیونکر ہو سکتی تھی ۔

آپ نے اسلامی جنگوں اور نتیجے میں ہونے والے قیدیوں کی مثال بھی پیش کی لیکن اس کا موازنہ مجھے نہیں علم کہ عہدِ حاضر کی تہذیبوں کی جنگ سے کیونکر ہوسکتا ہے ؟ اور اگر ہو سکتا ہے تو عصرِ حاضر میں مسلمان قیدیوں پہ ابو غریب یا قندھار جیل یا پھر گوآنٹاناموبے کیمپ میں یُو این او یا جینیوا کنونشن کیوں لاگو نہیں ہوتے ؟

آپ نے یوم آزادی سے لے کر آج تک اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اسلامی قوانین نافذ نہ کروا سکنے کا طعنہ بھی دیا ، جس کے جواب میں اسے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا کسی طرح نافذ کیا گیا ناموس رسالت (ص) پہ ایک بل ہی دنیا کو ہضم نہیں ہورہا تو ایسے میں پورے اسلامی قوانین کو کون برداشت کرتا ؟

آپ نے یہ بھی فرمایا ، ” کیا اسلام صرف اسی کو کہتے ہیں کہ جو ہمارے دین کے خلاف بات کرے ہمیں اشتعال دلوانے کے لیے بکواس کرے ہم آنکیں بند کر کے اس کی چالوں کو سمجھے بغیر اس کے قتل کے درپے ہو جائیں ؟ جبکہ حقیقی مجرم تک تو ہماری رسائی ہو ہی نہیں سکتی “

تو دوستو، نہ تو اسلام اور نہ ملکی قانون کسی کے بلاوجہ قتل کی اجازت دیتا ہے لیکن اس بات کی اجازت کہاں سے آگئی کہ اپنے ہی ملکی قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی شاتم کو کھلی چھٹی دے دی جائے یا اس کی پشت پناہی کی جائے اور پھر خود ہی اپنے ہی نافذ کردہ قانون کو ہی کالا قانون کہہ کر اس کا مذاق اڑایا جائے ؟ ایسے میں اگر کوئی اپنے جذبات پہ قابو نہیں رکھ سکتا تو بالکل فطرتی عمل ہے ۔ ایسے لوگوں کی پھر یا تو حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے یا حوصلہ شکنی ، جس کا جواب میں سب قارئین پہ چھوڑتا ہوں اور پھر انہی کے فیصلے کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے آپ کی وساطت سے معافی کا طلبگار ہوں گا ۔

دوستو کی اس بات سے بھی کوئی ذی عقل اختلاف نہیں کر سکتا کہ ، ” ہمیں انفرادی طور پر کسی کو سزا دینے کی اجازت ہرگز نہیں، نہ تو اسلامی قانون اور نہ ہی دنیا کا کوئی بھی دوسرا قانون بغیر تحقیق کے، بغیر جانچ پڑتال کے اور سب سے اہم بات ملزم کو اپنی صفائی کا موقع دیے بغیر سزا دینے کی اجازت دیتا ہے، چہ جائے کہ یہ سب انفرادی اور شخصی سطح پر ہو “

لیکن یہاں بات پھر اسی عشق اور عقل کی دلیل والی آ جاتی ہے ۔ جب قانون بنانے والے ہی اپنے بنائے گئے قانون کا مذاق اور عوام کے جذبات سے کھیلنا شروع کردیں تو پھر ان کی سوچوں میں انقلاب اور رویوں میں بغاوت کو کوئی نہیں روک سکتا ، تب غازی علم الدین سے لے کر ممتاز حسین قادری تک باغیوں کی لائینیں لگ جاتی ہیں ۔

مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پہ ہورہی ہے کہ ایک شاتمہء رسول (ص) کی پشت پناہی کرنے والے ، اس کی سزائے موت کو معاف کروانے والے اور ناموسِ رسالت (ص) قانون کو کالا قانون کہنے والے شخص کا آپ کے نزدیک شاتمِ رسول ہونا کہیں ثابت نہیں ہو رہا ؟

اور پھر ساتھ ہی آپ نے سلمان ر شدی کی مثال بھی دے دی ، ” کہ اسے کیوں بھول گئے جس کا شاتم ہونا صد در صد ثابت ہے، اگر مجھ میں حُب ِ رسول ہے تو میں اس کو قتل کیوں نہیں کرتا ؟؟ اس لیے کہ وہاں تک یا تو میری رسائی نہیں یا میری محبت محدود ہے “

یہاں میں پھر بھٹک گیا ہوں کہ آیا میرے احباب ایسے عمل کی مذمت کررہے ہیں یا کہ خود اس پہ اکسا بھی رہے ہیں ؟ سلمان رشدی کو اگرچہ اس کے ملک میں انتہائی اونچی سیکورٹی دی گئی ہے ، کہ وہ ان کے ایجنڈے پہ کام کررہا ہے ، لیکن یہاں نہ کسی کے عشق میں کمی ہے نہ محبت میں بلکہ اس کی صرف رسی ڈھیلی کی گئی ہے اور اس کا انجام بھی میں اور آپ انشاء اللہ اپنی زندگی میں ہی دیکھیں گے ۔

میں اپنے دوستوں  کے اس سوال پر کہ ، ” کیا ایک ایسے ملک میں جہاں اسلام صرف لوگوں کے دلوں میں انفرادی طور پر محفوظ ہے، جہاں حکومت مکمل طور پر اغیار کے ہاتھوں بکی ہوئی ہے، جہاں بنیادیں ہی غیر اسلامی ہیں وہاں ایسے بدبختوں کو فرداً فردا قتل کرنے سے بہتر یہ نہ ہوگا کہ اس ملک کی بنیادوں کو بدلا جائے، ایسے کہ وہاں ہر قانوں اسلامی ہو، جہاں ہمیں ایک آدھی اسلامی شق کے لیے اتنے پاپڑ نہ بیلنے پڑیں اور باقی ماندہ سارے کا سارا غیر اسلامی قانون نظر انداز نہ کرنا پڑے، جہاں قانون کے ساتھ ملکی آئین اور حکومتی دستور سب اسلامی ہوں تاکہ کہیں سے بھی کسی طرح کی غیراسلامی ملاوٹ اگر ہو بھی تو اس کا مقابلہ ڈٹ کر کیا جا سکے ؟؟؟؟؟؟ “

انہی کے جواب میں میں اپنی وہی بات دہراؤں گا کہ جب حکومتوں اور عوام کے جذبات و احساسات میں بُعد پیدا ہوجائے تو عوام کی سوچوں میں انقلاب اور رویوں میں بغاوت کو کوئی نہیں روک سکتا اور غازی علم الدین سے لے کر ممتاز حسین قادری تک باغی ہی جنم لیتے ہیں ۔ اور پھر ایسی باغی اور انقلابی نسل کو ابھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا جو آپ کے وضع کئے گئے ضوابط کے پورا ہونے وسیلہ بن سکے ۔

اور ایک عمومی  سوال کہ ، ” اگر مجھ میں، جذبہء ایمانی ہے تو میں اس اہم ترین کام کے لیے تگ و دو کیوں نہیں کرتا ؟؟ ‘

کے جواب میں میں یہی عرض کروں گا کہ کسی نے کسی کو کسی تگ و دو سے نہیں روکا ۔ آپ بھی سب کے ہم آواز ہوکر ملک و ملت اور دین و دھرم کے دشمنوں کو پہچانتے ہوئے انہیں انفرادی یا اجتماعی طور پہ کیفر کردار تک پہنچانے والوں کو سلام پیش کریں ، باقی کام یہ خود کردیں گے ۔۔۔

میرے دوست محمد احمد ترازی نے کیا خوب کہا کہ “ محبوب جس قدر بے مثال اور بے نظیر ہوگا اُس کے چاہنے والوں کے دلوں میں محبت کا جذبہ بھی اُسی قدر تیز اور سربلند ہوگااور جب اُس محبوب کی شخصیت اور احترام کے روشن نقوش محب ِصادق کے قلب و جاں میں نقش ہوجائیں تو پھر یہ چاہت اپنی انتہائی بلندیوں کو چھوتے ہوئے عشق ِسرمدی کا روپ اختیاردھار لیتی ہے ، جس کی بدولت محبوب کی ناموس اور اُن کے مقام و مرتبہ پر تصدق ہوجانا ایک فطری تقاضہ تصور کیا جاتا ہے “

میرے محترم دوستو  یہی عشق ہی تو ہے جس نے جہاں ایک طرف تو شیخ احمد سرہندی ، حضرت مجدد الف ثانی ، حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ صاحب ،امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اور حکیم اُمت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے دلوں کو منور کیا تو دوسری طرف ملت ِاسلامیہ کے شیر غازی علم دین شہید ، غازی مرید حسین ، غازی عبدالرشید ، غازی عبدالقیوم ، غازی عبد اللہ ، غازی منظور حسین ، غازی محمد صدیق ، غازی عبدالمنان ، غازی میاں محمد ، غازی احمد دین ، غازی معراج الدین ، غازی فاروق ، غازی حاجی محمد مانک جیسے سچے عاشق پیدا کئے جنھوں نے اپنے اپنے دور کے شاتمانِ رُُسل (ص) ، راجپال ، سوامی شردھانند ،نتھورام، چنچل سنگھ ، کھیم چند ، پالامل ، بھیشو ، چرن داس ، ویداسنگھ ، ہردیال سنگھ ، نعمت احمر قادیانی اور عبدالحق قادیانی جیسے مرتد واصل جہنم کئے اور اب انہی کی یاد ’ غازی ممتاز حسین ‘ نے اکیسویں صدی میں پھر سے تازہ کردی ۔

میری سب سے اپیل ہے کہ ایک شاتم کے پُشت پناہ ، اور بذاتِ خود بھی ایک شاتم ، کے لئے صفِ مرگ بچھانے کی بجائے اس کی یزیدیت کا ماتم کیا جائے تاکہ کل کو پیدا ہونے والے یزید ابھی سے عبرت حاصل کرلیں کیونکہ یہ دھرتی ماں ایسے غازیوں سے بھری پڑی ہے ۔

” ہمیں غازی ملک ممتاز حسین قادری پر فخر ہے اور ہم اس کی جرات و ہمت کے ساتھ اس ماں کو سلام کرتے ہیں جس نے اس سپوت کو جنم دیا “

بے شک ” غازی ممتاز حسین قادری “ قابل فخر ہیں جنھوں نے اپنے نام میں شامل ’ حسین ‘ کی لاج رکھتے ہوئے اسے پھر ’ ممتاز ‘ کردیا اور آج کے یزید کو للکار کر واصلِ جہنم کیا ۔ ہم اس عظیم ماں کو بھی اپنی عقیدت اور سلام پیش کرتے ہیں جس نے اس دھرتی اور دھرم کو ایسا سپوت بخشا ۔

” اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون توہین رسالت اور امتناع قادیانی آرڈیننس امریکہ اور اس کے حواریوں کے سینے میں نیزے کی انی کی طرح کھٹکتا ہے امریکی صدر سے لے کر امریکی سفیر تک ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ یہ قوانین ختم کردیئے جائیں تاکہ دشمنان اسلام کو شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں توہین کا اوپن لائسنس مل جائے “

یقین جانیں ملت اسلام میں جب تک ایک بھی ’ غازی ممتاز حسین قادری ‘ زندہ ہے ان ملعونوں کے ناپاک ارادے کبھی پایہء تکمیل تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔۔ انشاء اللہ

تحریر : جاوید اقبال کیانی ۔برمنگھم ( عالمی اخبار )