• صارفین کی تعداد :
  • 1270
  • 1/30/2011
  • تاريخ :

پاکستانیوں کے امریکی قاتل کی گرفتاری غیر قانونی ؟

پاکستان کا پرچم

پچھلے دنوں یہ خبر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی کہ لاہور میں امریکی قونصل خانے کے ایک ملازم ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ اور گاڑی کی ٹکر سے تین افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔

خبر کی تفصیل کچھ یوں بیان کی گئی کہ ایک امریکی شہر ڈیوڈ نے لاہور کے مصروف علاقے مزنگ چونگی میں موٹر سائیکل پر سوار دو افراد پر فائرنگ کر دی اور اس کے بعد اس نے زخمی ہونے والے دونوں افراد کی تصویریں کھینچیں اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں کئي افراد کو اپنی گاڑی سے ٹکر مار دی ۔

تاہم کچھ دور جانے کے بعد وہ ٹریفک میں پھنس گیا جہاں سے پولیس نے اسے لوگوں کی مدد سے گرفتار کر لیا ۔ اس واقع کے فورا بعد پولیس نے دعوی کیا کہ مرنے والے والے دونوں افراد ڈاکو تھے اور ان سے پستول بھی برآمد ہوئے ہیں۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس ملزم کو بچانے اور مرنے والے افراد کو ڈاکو ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ امریکی شہری کی کارروائی سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بدنام زمانہ بلیک واٹر کمپنی کا کوئی کمانڈو ہے۔

پاکستان تیسری دنیا کا ایک ایسا ملک کہ جس کے شہریوں کو ہلاک کرنا امریکیوں کا معمول ہے اور مختلف اداور میں امریکی فوجی، پاکستان کے اندر اپنے کمانڈوز اتار کر کاروائیاں کرچکے ہیں، لیکن بظاہر ایک امریکی سفارتکار کے ہاتھوں اس طرح لوگوں کا قتل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے ۔

پاکستانی حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مقتولین کوڈاکو قرار دینا اور ان کے پاس سے اسلحہ برامد ہونا اور امریکی حکومت کی جانب سے اپنے شہری گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینا، حاکم و محکوم کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔

سیاسی مبصرین ابھی سے ہی یہ پیشنگوئی کررہے ہیں کہ امریکی شہری کو پاکستان کی کوئی عدالت سزا نہیں دے سکتی اور تین افراد کے قتل کے جرم میں اسے زیادہ سے زیادہ جو سزا دی جا سکتی ہے وہ یہ کہ اسے ناپسندیدہ عنصر قرار دے کر پاکستان سے نکال دیا جائے ۔

دور جدید میں حاکم و محکوم یا کیپچولیشن کا قانون جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار مغربی ملکوں خصوصا امریکہ کے لئے ایک ایسی سپر کہ جس کے ذریعے وہ اپنے دوست اور حلیف ملکوں میں من مانی کرتا پھرتا ہے ۔

اس اندھے اور کالے قانون کے تحت ایک معمولی امریکی شہری کو یہ حق حاصل کہ جب چاہے تیسری دنیا کی کسی بھی قابل احترام شخصیت کو قتل کر دے تاہم اس ملک کی عدالت کو اس پر مقدمہ چلانے کا اختیار نہیں لیکن اسی ملک کا کوئی عہدیدار اگرکسی امریکی کے کتے کو اپنی گاڑی سے ٹکر ماردے تو اس پر اس ملک عدالت میں بھی کیس چلا سکتا ہے اور امریکی کورٹ میں بھی اس کو طلب کیا جا سکتا ہے ۔

اب دیکھنا یہ کہ قتل کے ارادے پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا دینے والا امریکی کورٹ اقدام قتل پر اپنے شھری کے لئے کیا سزا تجویز کرتا ہے ؟

بشکریہ اردو ریڈیو تہران