• صارفین کی تعداد :
  • 860
  • 4/3/2011
  • تاريخ :

مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک

گیارہ ستمبر

گیارہ ستمبر کے مشکوک واقعات کے بعد امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور ڈرانے دھمکانے سلسلہ اب بھی جاری ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب مسلمانوں ذہنی یا جسمانی طور پر ٹارچر نہ کیا جاتا ہو ۔

اطلاعات کے مطابق نام نہاد امریکی محکمہ انصاف کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔

اسسٹنٹ اٹارنی برائے شہری حقوق تھامس پیریز نے اس اعتراف کے ضمن میں

امریکی سینیٹ کی سب کمیٹی برائے 'آئین، شہری و انسانی حقوق' کے ارکان کو بتایا کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران محکمہ انصاف کی جانب سے تشدد، دھمکیوں اور بدمعاشی کی 800 سے زیادہ ایسی شکایات کی تحقیقات کی گئیں جن کا براہِ راست نشانہ مسلمان تھے۔

پیریز نے کہا کہ امریکی معاشرے میں مسلم مخالف جذبات کے پروان چڑھنے کے باعث نئی مساجد کی تعمیر پہ کھڑے ہونے والے تنازعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سماعت کے دوران کمیٹی کے ڈیموکریٹک چیئرمین ڈک ڈربن نے امریکہ کے سرکاری حکام کی جانب سے کی جانے والی غیر محتاط بیان بازی کو امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف "امتیازی سلوک کے زرخیز ماحول" کی پیدائش کی وجہ قرار دیا۔

امتیازی سلوک اور غیر انسانی برتاؤ اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کا تعلق گیارہ ستمبر کے واقعات سے مربوط قراردیکر امریکہ والے دراصل اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ماضی میں بھی اسطرح کے امتیازی سلوک کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔اس کے علاوہ بدنامی سے بچنے اور انسانی حقوق کے جھوٹے دعوؤں کی لاج رکھنے کے لئے امریکہ والے اس قسم کے سارے اقدامات کو فرد واحد کا کام بتا کر اسے قربانی کردیتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ ابو غریب، گوانتا نامو، اور یورپ وامریکہ میں قائم بدنام زمانہ جاسوس تنیظم سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ کیا سوک کیا جاتا رھا ہے ۔ کیا اتنے وسیع پیمانے پر قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کو انفرادی فعل قرار دیا جاسکتا ہے۔حقیقت تو یہ کہ ایذارسانی کے نت نئے طریقے اور وسائل کی ایجادات اور حتی دیگر دوست ملکوں کو ان فراہمی کسی امریکی سر پھرے کا کام نہیں بلکہ یہ امریکی حکومت اور اس کے ادارے ہیں جو کانگریس کی مرضی منشا اور دستور کے مطابق کام کرتے ہیں اور صدر وقت امریکہ کی تائید حاصل ہے اور امریکہ اور دنیا بھر میں ہونے والے ظلم ستم سے امریکی حکومت اور حکام کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بہرحال منگل کے روز سماعت کے دوران کمیٹی کے ری پبلکن رکن سینیٹر گراہم نے مسلمانوں کے خلاف اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جن کی طرف سے دہشت گردانہ اقدامات کےخطرات موجود ہیں۔

یہ ہے امریکی جمہوریت اور انسانی حقوق کی حقیقی تصویر کہ جس کو پہچاننے کی ضرورت ہے ۔

 

بشکریہ اردو ریڈیو تہران