• صارفین کی تعداد :
  • 804
  • 4/6/2011
  • تاريخ :

خطے کی ریاستوں نے بحرین پر حملہ کرکے نہایت بھونڈا فعل انجام دیا

ڈاکٹر محمود احمدی نژاد

ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے بعض خلیجی ریاستوں کی طرف سے بعض دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : جو لوگ ایران کو دھمکی دیتے ہیں وہ ایران کا نقشہ اپنے سامنے رکھ لیں اور جب ایران سے مخاطب ہوتے ہیں تو دیکھ لیں کہ وہ بات کس سے کر رہے ہیں؟

ابنا  کی رپورٹ کے مطابق صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے آج شام کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیا۔ یہاں بحرین، لیبیا اور یمن سمیت علاقائی ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں پوچھے گئے سوالات پر کے ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کی جوابات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے.

 انھوں نے کہا:

دنیا میں بڑے بڑے واقعات رونما ہورہے ہیں جو انسانی تبدیلیوں کے زمرے میں آتے ہیں اور تبدیلیاں عظیم انسانی تبدیلیوں کی تمہید ہیں۔

سرمایہ دار اور سرمایہ پرست آگئے ہیں اور ان امور میں مداخلت تمام اقوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقدرات کا فیصلہ خود کریں، با عظمت و با عزت رہیں۔ میری نصیحت ہے کہ حکومتیں اور اقوام ساتھ ساتھ رہیں حکومت اور قوموں کے درمیان اگر صحتمند تعلق نہ ہو تو حکومت کا فلسفہ ہی ختم ہوجاتا ہے حکومتیں در حقیقت قوموں کے عزم و ارادے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ حکومتیں قوموں کے بغیر بے معنی ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ اور ان کے علاقائی حامی میدان میں آئے اور مداخلت پر اتر آئے تا کہ ایک طرف سے سرمایہ داری نظام کو نجات دیں اور دوسری طرف سے صہیونی ریاست کو نجات دیں۔

تمام قوموں کو معلوم ہے کہ صہیونی ریاست کے پاس بقاء کا کوئی بہانہ نہیں ہے اور اس کی بقاء کے تمام عوامل ختم ہوگئے ہیں۔ علاقے کی تمام اقوام صہیونی ریاست کے خلاف ہیں اور صہیونی ریاست سے تمام مقبوضہ سرزمینوں کی آزادی کے خواہاں ہیں۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ 600 برسوں کے دوران جس کسی نے بھی دنیا پر حکمرانی کا ارادہ کیا تو اس نے اپنی حرکت کا آغاز مشرق وسطی سے کیا اور اس علاقے پر مسلط ہونی کی بعد انھوں نے دنیا میں اپنی تسلط کے لئے راستہ ہموار کیا۔ 

ہم نے دیکھا کہ مشرق وسطی استعماری طاقتوں نے بار بار اس علاقے سے اپنی اقدام کا آغاز کیا اور کئی دفعہ اس علاقے پر مختلف طاقتیں مسلط ہوئیں۔

استعماری طاقتوں نے اپنی تمام قوت استعمال کرکے صہیونی ریاست کی حیات کے لئے مناسب فضا تیار کرنی کی کوشش کی لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کی ساتھ ہی  سامراجیوں کا یہ منصوبہ دھڑام سے زمین پر آرہا۔ آج انقلاب کے تین عشرے بعد صہیونی ریاست اپنا فلسفہ وجود تک ہی کھو گئی ہے اور استعماری طاقتیں اپنی حیات و بقا کے لئے اس ریاست کو بچانے کی کوشش کررہی ہیں؛ سب اسے بچانا چاہتے ہیں۔

حکومتوں اور اقوام کو زیرک اور با کیاست ہونا چاہئے ہوشیار رہنا چاہئے اور حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے۔

فوجی مداخلت سے قوموں کے جائز مطالبات کو دبانا اور عوام کو کچلنا ممکن نہیں ہے گو کہ اس طرح حکومتیں تھوڑے عرصے تک زور زبردستی کے ساتھ اپنے اقتدار کی حفاظت کرسکیں گی لیکن یہ عرصہ طویل نہیں ہوتا اور قومیں اپنے حقوق حاصل کرکے رہتی ہیں۔

بہرحال سامراجی طاقتیں اور ان کے معاونین صہیونی ریاست کو بچانے کے لئے آئی ہیں اور ان کی دہری پالیسیوں اور دو گانہ اور چند گانہ معیاروں کا سبب بھی یہی ہے۔

بحرین میں مداخلت کرکے علاقے کے تمام ممالک نے عدم ہوشیاری اور عدم کیاست کا ثبوت دیا ہے۔

کل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے میری بات ہوئی اور ان سے میں نے کہا کہ یہ سلامتی کونسل کیوں قوموں پر جارحیتوں کا سلسلہ کیوں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک قرارداد منظور ہوتی ہے اور اس کو ایک وسیلے اور اوزار کی حیثیت سے بڑی طاقتوں کے حوالے کیا جاتا ہے اور وہ میزائلوں اور ہوائی جہازوں سے ایک ملک پر حملہ کرتی ہیں۔ البتہ ہم نے اس سے قبل قوموں کی سرکوبی کی مذمت کی اور حکامں سے کہا کہ وہ اپنی قوموں کے ساتھ یات چیت کریں اور ان کے حقوق دے دیں اور اگر ایسا نہ کریں تو قوموں کو کچل کر وہ حکومت کس پر کریں گی؟ لیکن ہم مغربی طاقتوں کی جارحیت کو بلا جواز سمجھتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔

آج امریکہ اور برطانیہ نے اپنا چہرہ نیٹو کے نقاب میں چھپا رکھا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ قوموں اور ملکوں پر جارحیت کے حوالے سے سزا اور مقدمات سے بچ سکیں گے۔

میں نے سیکریٹری جنرل سے کہا کہ کیا بہتر نہ تھا کہ ایک غیر جانبدار ٹیم کو لیبیا اور یمن میں روانہ کیا جاتا جو دونوں فریقوں کے لئے قابل قبول اور قابل اعتماد ہو نہ یہ کہ لیبیا پر امریکہ اور اس کے حلیف حملہ کردیں۔

آج اگر ایک شخص بھی امریکہ اور نیٹو کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے تو اس کا حساب امریکہ اور نیٹو کے رکن ممالک سے لیا جائے گا۔ اب دھوکا اور فریب کا زمانہ نہیں ہے قومیں بیدار ہوگئی ہیں اور عظیم بیداری کا انتظار ہے۔ آج کے دور میں مغربی طاقتیں دھوکے اور مکاری سے اپنی بات نہیں منواسکتیں۔ ہم نے اپنی حالیہ تاریخ میں دیکھا کہ بعض اوقات ان طاقتوں نے بعض حرکتوں کو دھوکے اور فریب اور طاقت کے ذریعے اپنی اصلی سمت سے منحرف کیا لیکن اس انحراف کا دور بھی بہت مختصر رہا اور قومیں پھر بھی اٹھ گئیں۔

میں خطے کے حکمرانوں سے کہتا ہوں کہ ہوشیار رہیں؛ اندرونی مسائل خونریزی کے بغیر بھی حل کئے جاسکتے ہیں۔ قومیں جاگ گئی ہیں اور بین الاقوامی بیداری بھی عنقریب آرہی ہے۔ خونریزی کے بغیر اور اصلاحات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔ گو کہ قتل عام اور دھونس دباؤ کے باعث ممکن ہے کہ وہ تھوڑے عرصے تک قوموں کو خاموش کرسکیں لیکن اس خاموشی کی مدت مختصر ہوتی ہے۔ جو لوگ اس طریقے سے اپنی قوموں کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنی قوموں کو تباہ کردیتے ہیں۔ سب جان لیں اور ہوشیار رہیں کہ ان تمام مسائل اور ان مداخلتوں اور سرکوبیوں کے بیچ سے کہیں صہیونی ریاست کے تحفظ کے اوزار ہی باہر نہ نکل آئیں۔

ڈاکٹر احمدی نژاد نے خلیج فارس تعاوں کونسل کے کل کی قرار داد اور ایران کی شدید مخالفت اور ایران کو دھمکیاں دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

یہ قراردادیں ہرگز اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ قراردادیں امریکہ اور اس کے حلیفوں کے دباؤ پر سامنے آرہی ہیں۔ دھونس دھمکیوں کی پالیسی ایران پر آزمائی گئی۔ ہم نے خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ امریکہ کو اس وقت صہیونی ریاست بچانے کی فکر ہے اور اس کے لئے علاقے کے ممالک کے درمیان اختلاف کی امریکہ کو اشد ضرورت ہے۔

خلیج فارس تعاوں کونسل کے ممالک نے اس سے قبل ہمارے خلاف جو بھی کیا ہم نے اس سے چشم پوشی کردی اور ہمیں امید ہے کہ ماضی کی غلطیان دہرانے سے اجتناب کیا جائے۔ امریکہ جانے والا ہے اور اس بار اس کی تمام سازشیں ماضی کی نسبت بہت زیادہ رسوائی کے ساتھ ناکام ہونگے۔ امریکہ عالمی سطح پر ریشہ دوانیوں سے بہت جلد الگ ہونے والا ہے اور جو امریکہ کا ساتھ دے گا اس کو بھی جانا ہی ہوگا۔

انھوں نے کہا:

بحرین پر حملہ کرکے انھوں نے نہایت بھونڈا فعل انجام دیا انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیا اس سے قبل صدام نے ایران اور کویت پر چڑھائی نہیں کی؟ آج صدام کہاں ہے؟ اس کو کویت اور ایران سے کیا ملا؟

امریکہ دنیا کا بے وفا ترین دوست ہے۔ امریکہ جنگ ویتنام سے لے کر اب تک اپنے دوستوں کے خلاف جنگیں لڑتا آیا ہے۔ صدام نے اپنا وجود، اپنے ملک کی معیشت اور آبرو تک امریکی مفادات کے لئے خرچ کردی اور جب امریکی مفادات نے تقاضا کیا تو امریکہ نے ہی اپنے اس وفادار دوست کو نیست و نابود کردیا۔

جس زمانے میں صدام ایران کے شہروں کو کیمیاوی ہتھیاروں کا نشانہ بنا رہا تھا امریکہ اور یورپی ممالک اس کی حوصلہ افزائی کررہے تھے اور اس کو آفرین کہہ رہے تھے اور جب ان کے مفادات کا تقاضا آیا تو وہ صدام کو خودکشی کی پیشکش کرنے لگے اور بعد میں خود ہی اس کو نیست و نابود کیا۔

خطے کے ممالک جان لیں کہ یہ ایک بہت بڑا کھیل ہے وہ اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عظیم تر مشرق وسطی کی تشکیل چاہتے ہیں جو اسرائیل کے لئے خطرناک نہ ہو لیکن دوسری طرف سے علاقے کی اقوام بھی نئے مشرق وسطی کی تشکیل کے لئے سرگرم ہوگئی ہیں اور اللہ کی فضل و کرم سے وہ ایک نئے مشرق وسطی کی تشکیل کی طرف بڑھ رہی ہیں جس میں صہیونی ریاست نہ ہوگی اور اس میں امریکی اثر و رسوخ کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ ہوگا۔

خطے کے حکمران یقین کریں کہ امریکہ نے ان سب کے لئے منصوبے تیار کرلئے ہیں اور یکے بعد دیگرے ان سب کا کھاتہ صاف کرنا چاہتا ہے۔

بہت بھونڈی بات ہے کہ تم نے بحرین میں فوجیں داخل کردیں، حکومت بحرین بھی بہت بھونڈے فعل کا مرتکب ہوئی جس نے اپنے عوام کو طاقت کے ذریعی کچلنا چاہا اور اپنی قوم کو کچلنے کے لئے دوسرے ممالک کی فوجوں کو بلوایا۔

بجرینی حکومت کو اس کو ملک میں انتخابات کا انعقاد کرانا چاہئے تھا، عوام کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تھا یہ ہماری نصیحت ہے، کیا یہ مداخلت ہے؟ ہم سب کے دوست ہیں اور سب کی بقاء کے خواہاں ہیں، ہم پڑوسی ہیں اور ہمیں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہنا ہے ہمیں ساتھ ساتھ رہنا چاہئے متحد رہنا چاہئے۔ یہ ہماری دوستانہ اور برادرانہ نصیحت ہے کہ بحرینی حکام اپنے عوام سے مذاکرات کریں اور ان کی بات سنیں اور ان کے مطالبات تسلیم کریں ورنہ ان پر کس طرح حکومت کرسکیں گے؟ قوم اور حکومت اگر الگ الگ ہوجائیں اور حکومت قوم کی دشمن بن جائے تو وہ کس جواز پر اس قوم پر اپنا اقتدار جتا سکے گی؟ اگر کوئی علاقائی بات ہے تو آئیں بات چیت کریں۔

اندرون ملک بھی ہماری نصیحت یہ ہے کہ انتخابات منعقد کریں اپنے عوام کو عزت دیں اور حکومت کو حساب و کتاب کے تابع بنائیں۔

ایک چینی نامہ نگار نے کہا کہ علاقے میں رونما ہونے والے تمام واقعات و حادثات میں جیت صرف ایران کی ہے ایسا کیوں ہے؟ تو صدر ڈاکٹر احمدی نژاد نے مسکرا کر کہا:

علاقے کے تمام مسائل ہمارے فائدے میں ہیں، تمام تبدیلیاں ایران کے فائدے میں ہیں اگرچہ ان تبدیلیوں کے کے دوران بعض لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں جو نہایت دکھ اور افسوس کا مقام ہے۔ ہم افغانستان اور لیبیا وغیرہ میں یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ ہم قتل و غارت کے خلاف ہیں اگر کسی واقعے میں صرف ایک شخص بھی قتل کیا جائے اس سے کسی کو فائدہ تو نہیں پہنچتا بلکہ علاقائی حالات کی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔

میں نے کل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی کہا کہ ایسا کیوں ہے کہ جہاں امریکہ اور یورپ کے مفادات سامنے آتے ہیں تو وہ ایسی قرارداد سے حملے کا فائدہ لیتے ہیں جس میں حملے اور جارحیت کی کوئی شق ہی نہیں ہے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ قوموں کے حقوق کے لئے اور ایک آمر کی سرکوبی کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہیں!؟

مجھے آج تک دنیا کا کوئی بھی ایسا آمر اور ڈکٹیٹر نظر نہیں آیا جس کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل نہ رہی ہو۔ تمام شدت پسند آمرین نے امریکہ اور یورپ کے سہارے فوجی بغاوتیں کرکے اقتدار پر قبضہ کیا ہے لیکن لیبیا میں انھوں نے جو مداخلت کی ہے وہ کسی صورت میں بھی آمریت کی مخالفت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ان کے مفادات کا تقاضا ہے اور اب ہم دیکھ  رہے ہیں کہ نیٹو والے بھی عوام کو شکار کر رہے ہیں اور لیبیائی آمر بھی عوام ہی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

بہر حال قومیں جاگتی ہیں تو یہ ایران کے فائدے میں ہے اور اب قومیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں لہذا یہ ہمارے فائدے میں ہے  اور دوسروں کے فائدی میں بھی ہے۔ ہمارے فائدے میں ہے کیونکہ ہم آزادی اور بیداری کے حامی ہیں اور جب قومیں اپنی جدوجہد میں جیت جاتی ہیں تو یہ ہماری جیت ہے۔

انھوں نے امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کے بارے میں کہا کہ ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات امریکہ کے فائدے میں ہیں لیکن وہاں حکمرانوں اور بالعموم امریکی انتظامیہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ ایک پس پردہ گروپ حقیقی اقتدار کا مالک ہے اور اسی گروپ کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کس کو آگے لائیں اور وہ حالات کا رخ جانچ کر کبھی تشدد پسند شخص کو حکمران بناتے ہیں، کبھی منہ پر مسکراہٹ سجانے والے مکار شخص کو آگے لاتے ہیں، کبھی ایک دیو صفت شخص کو آگے لاتے ہیں اور کبھی انسان دوستی کا نعرہ لگانے والے شخص کو صدر بناتے ہیں۔ یہ گروپ بھی حقیقی حاکم نہیں ہے بلکہ یہ گروپ بھی صہیونیت کے مقتدرین کی رائے پر عمل کرتا ہے۔ اوباما تبدیلی کا نعرہ لگا کر صدر بنے تھے اور ان کے پاس تبدیلی کے لئے مناسب ترین مواقع بھی موجود تھے لیکن انہیں صہیونیوں کی اجازت نہ مل سکی۔ وہ غیر انسانی امریکی پالیسیاں ترک کرسکتے تھے لیکن صہیونیوں نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ امریکہ میں جو بھی صدر بنتا ہے وہ صہیونی مفادات کے تحفظ کا پابند اور صہیونی پالیسی کا تابع ہوتا ہے چنانچہ اوباما ماضی کے امریکی صدور سے بھی زیادہ شرمناک صورت حال کا سامنا کرکے ہی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔

امریکی پالیسی میں عقل و دانشمندی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ورنہ وہ ایران سے دشمنی نہ کرتے۔

ہوسکتا ہے کہ علاقے میں بعض ممالک ہمارے خلاف ہوں لیکن امریکہ کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس علاقے میں کوئی بھی ـ خواہ وہ ہمارا دوست ہو خواہ ہمارا مخالف ہو ـ وہ امریکہ کا دوست نہیں ہے بلکہ یہاں تمام قومیں امریکہ کے خلاف ہیں اور یہ ان کے لئے موت کا پیغام ہے اور ان کی حیات و بقاء کے مواقع یکے بعد دیگرے ختم ہونے کی علامت ہے۔ وہ اگر ایران کے ساتھ باہمی عزت و احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات قائم کرتے تو ان کی بقاء ممکن ہوسکتی تھی لیکن انہیں ایسا کرنے کے لئے صہیونیوں کی اجازت درکار ہے اور صہیونی ہمارے بھی دشمن ہیں اور دنیا کی تمام اقوام کے بھی دشمن ہیں۔

انھوں نے بعض خلیجی ریاستوں کی طرف سے بعض دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جو لوگ ایران کو دھمکی دیتے ہیں وہ ایران کا نقشہ اپنے سامنے رکھ کر فیصلہ کریں کہ دھمکی دینا مناسب ہے یا نہیں؟ امریکہ بھی ہمارا نقشہ اپنے سامنے رکھ کر دھمکی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا کرے اور علاقے کی ممالک بھی ایسا ہی کریں؛ وہ جب ایران سے مخاطب ہوتے ہیں تو پہلے جانچ اور پرکھ لیں اور دیکھ لیں کہ وہ بات کس سے کررہے ہیں؟  وہ اپنا نقشہ بھی دیکھیں اور ہمارا نقشہ بھی دیکھیں۔