• صارفین کی تعداد :
  • 2520
  • 4/16/2011
  • تاريخ :

شیخ  صدوق كا علمی سفر

بسم الله الرحمن الرحیم

اگر شیخ صدوق كی زندگی كے اس گوشہ كا مطالعہ اور اس میں غور و خوض كیا جائے تو معلوم ھوگا كہ آپ كا وجود احادیث كی جمع آوری كے عشق سے سرشار تھا اور آپ نے ھادیان دین كے اقوال كی حفاظت اور ان كی نشر و اشاعت اپنا پھلا مشغلہ بنا ركھا تھا اور اسی مقصد تك پھونچنے كے لئے بلخ و بخارا سے لے كر كوفہ و بغداد اور وھاں سے مكہ اور مدینہ تك كا سفر كركے تمام سنی و شیعہ اسلامی مراكز تك اپنے كو پھونچایا اس سفر میں آپ كو بھت سی مشكلات كا سامنا ھوا لیكن آپ نے ان كو اپنا لیا غربت كا غم برداشت كیا اور پیغمبر و آل پیغمر علیھم السلام كی احادیث كے بھت بڑے ذخیرہ كے ساتھ واپس پلٹے ۔

 آپ جس شھر میں وارد ھوتے تھے وھاں كے جیّد علماء كی تلاش میں لگ جاتے اور ان كے علم سے استفادہ كرتے تھے اور طلاب علوم دین كو اپنے علمی ذخیرہ سے سیراب كرتے تھے ۔ آپ ماہ رجب ۳۵۲ میں امام رضا علیہ السلام كی زیارت كے لئے مشھد تشریف لے گئے اور اس كے بعد رے واپس آگئے ۔ اسی سال آپ نے ماہ شعبان میں نیشاپور كا سفر كیا جو اس زمانے میں خراسان كے اھم ترین شھروں میں سے تھا وھاں كے لوگ آپ كے چاروں طرف جمع ھو گئے اور آپ نے وھاں پر اپنی واضح اور مدلل گفتگو سے غیبت امام مھدی (عج) كے متعلق لوگوں كی فكری گتھیوں كو سلجھا دیا ۔ آپ نے خود ھی اس واقعہ كا ذكر اپنی كتاب اكمال الدین میں كیا ھے، اس كے علاوہ آپ نے وھاں كے بعض علماء سے حدیث سنیں اور انھیں نقل كیا ھے ان میں سے بعض حسین بن احمد بیھقی، ابو الطیب حسین بن احمد اور عبد اللہ بن محمد بن عبد الوھاب ھیں ۔ مرو میں بھی آپ نے كچھ افراد سے احادیث سنیں اور انھیں نقل كیا ھے جن میں سے بعض افراد محمد بن علی شاہ فقیہ، ابو یوسف رافع بن عبد اللہ بن عبد الملك ھیں، آپ نے اس كے بعد بغداد كی طرف سفر كیا وھاں كے چند علماء سے احادیث حاصل كی ان میں سے بعض یہ ھیں : حسین بن یحیی علوی، ابراھیم بن ھارون، علی بن ثابت (والیبی) ۔ آپ ۳۵۴ میں وارد كوفہ ھوئے اور وھاں كے بزرگوں سے اخذ حدیث كیا جن میں سے محمد بن بكران نقاش، احمد بن ابراھیم بن ھارون، حسن بن محمد بن سعید ھاشمی، علی بن عیسیٰ، حسن بن محمد مسكونی اور یحییٰ بن زید بن عباس بن ولید جیسے مشائخ كے نام لیے جا سكتے ھیں ۔

اسی سال آپ زیارت اور حج بیت اللہ كے لیے حجاز روانہ ھوئے اور ھمدان كے راستے میں قاسم بن محمد بن احمد بن عبدویہ، فضل بن فضل بن عباس كندی اور محمد بن فضل بن زیدویہ جلاب سے احادیث سنیں اور نقل كیا ھے ۔ حج كے انجام دینے كے بعد سفر سے واپسی پر مكہ اور فید كے درمیان احمد بن ابی جعفر بیھقی سے روایت حاصل كی ۔ آپ دوبارہ ۳۵۵ میں بغداد تشریف لائے شاید آپ كی یہ تشریف آوری حج بیت اللہ سے واپسی كے بعد كی ھے ۔ كتاب المجالس سے معلوم ھوتا ھے كہ آپ اس كے علاوہ دوبار اور بھی مشھد كی زیارت سے مشرف ھوئے ھیں ایك بار ۳۶۷ میں تشریف لے گئے اور وھاں سید ابو بركات علی بن حسین حسینی اور ابوبكر محمد بن علی كے سامنے حدیثیں پیش كیں اور محرم سے پھلے ۳۶۸ میں رے واپس آگئے، دوسری مرتبہ اس وقت جب كہ ما وراء النھر كی طرف سفر كا ارادہ تھا راستے میں مشھد اور بلخ كی طرف بھی تشریف لے گئے اور وھاں كے علماء منجملہ حسین بن محمد انشانی رازی، حسین بن احمد استرآبادی، حسن بن علی بن محمد بن علی بن عمرو العطار، حاكم ابو حامد احمد بن حسین اور عبید اللہ بن احمد فقیہ سے كسب فیض كیا ۔ ایلاق میں بھی محمد بن عمرو بن علی بن عبد اللہ بصری اور محمد بن حسن بن ابراھیم كرخی وغیرہ سے اخذ حدیث كیا، یھی وہ دیھات تھا جھاں شریف الدین ابو عبد اللہ محمد بن حسن  المعروف بہ نعمت نے آپ سے درخواست كی تھی كہ كتاب من لا یحضرہ الفقیہ تحریر كریں جس كی تفصیل ھم تالیفات كی فصل میں بیان كریں گے ۔ آپ اس كے بعد سرخس كی طرف عازم سفر ھوئے اور وھاں سے سمرقند تشریف لے گئے ۔ گرگان كی طرف سفر میں بھی آپ نے ابو الحسن محمد بن قاسم استرآبادی سی حدیثیں لیں ھیں .

 

مولف : محمد حسین فلاح زادہ

مترجم : ذیشان حیدر زیدی

(گروه ترجمه سایت صادقین)


متعلقہ تحریریں:

شیخ صدوق كا حسب و نسب

شیخ صدوق ؛ حدیث صداقت

سید رضی  اور ایك بے موقع غروب

سید رضی اور علماء اہل سنت كی نگاہ میں

سید رضی  اور عظیم ذمہ داری