• صارفین کی تعداد :
  • 803
  • 7/3/2011
  • تاريخ :

امام خامنہ ای: ہم استکبار اور غاصب صہیونیوں کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کی حمایت و تأئید کرتے ہیں

امام خامنہ ای

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق ملک کے اعلی حکام ، عوام کے مختلف طبقات اور اسلامی ممالک کے سفیروں نے کل بروز جمعرات رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای سے ملاقات کی اور امام خامنہ ای نے روز بعثت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے آئے ہوئے مہمانوں سے خطاب کیا۔

آپ کے خطاب کا متن درج ذیل ہے:

بسم‌اللہ‌الرّحمن‌الرّحيم

مبارکباد عرض کرتا ہوں اس عظیم عید پر اور اس شریف یوم پر اس مجلس میں حاضرین محترم، ملک کے محترم حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور ملت عزیز ایران اور عظیم اسلامی امت اور پوری انسانی برادری کو۔

اگر ایک دن کی عظمت کی وجہ یہ ہو کہ خداوند متعال نے اس روز بنی نوع انسان پر ایک لطف نازل فرمایا ہے تو یقینی طور پر بعثت رسول (ص) کا دن سال کے تمام ایام سے زیادہ اہم ہے؛ کیونکہ بعثت کی نعمت اور بنی نوع انسان کے لئے پیامبر اعظم (ص) کو بھیجنا پوری تاریخ میں اللہ تعالی کی تمام نعمتوں سے عظیم تر ہے۔ لہذا جرأت سے کہا جاسکتا ہے کہ بعثت کا دن پورے سال کے تمام ایام سے برترین، عظیم ترین اور پربرکت ترین ہے۔ ہمیں اس روز کے واقعے کی تعظیم کرنی چاہئے اور اس واقعے کی عظمت کو اپنی نظروں کے سامنے مجسم کرنا چاہئے۔

اميرالمؤمنين (عليہ الصّلاة و السّلام) نے فرمایا:

«ارسلہ على حين فترة من الرّسل و طول ہجعة من الأمم»؛ بعثت ایسے وقت واقع ہوئی کہ بہت لمبے عرصے سے بنی نوع انسان انبیائے الہی کے وجود سے محروم تھا۔ حضرت عیسی (ع) کے زمانے سے تقریباً 600 برس گذر رہے تھے، سینکڑوں برسوں سے انسان نے سفیر الہی کا دیدار نہیں کیا تھا۔ نتیجہ کیا تھا؟ «و الدّنيا كاسفة النّور ظاہرة الغرور»؛ دنیا تاريك تھی، ظلمانى تھی، معنویت رخت سفر باندھ کر جاچکی تھی، انسان جہالت اور غرور [دھوکے] میں تھا۔ ایسے حالات میں خداوند متعال نے پیغمبر اکرم (ص) بھیجا۔

نبی مکرم (ص)، وہ لائق اور شائستہ عنصر تھے کہ اللہ تعالی نے پوری انسانی تاریخ میں اس عظیم تحریک کے لئے آپ (ص) کو تیار کررکھا تھا۔ چنانچہ آپ (ص) 23 سال کے عرصے میں ایک تحریک کا آغاز کرنے میں کامیاب ہوئے جو تمام تر رکاوٹوں اور تمام تر مشکلات کے باوجود آج تک تاریخ کو آگے دھکیلتی رہی ہے اور آگے بڑھاتی رہی ہے۔ 23 سال کی مدت مختصر سی مدت ہے۔ اس عظیم تر حرکت کے تیرہ سال نہایت غریبانہ جدوجہد [عالم تنہائی میں جدوجہد] کی حالت میں گذرے۔ مکہ میں یہ سلسلہ ابتداء میں پانچ افراد، 10 افراد اور 50 افراد سے شروع ہوا اور مختصر سے جمعيت نے متعصب، جاہل اور اندھے دشمنوں کا ناقابل برداشت دباؤ کے سامنے استقامت کرنے میں کامیاب رہے۔ مستحکم ستونوں کی تعمیر ہوئی تا کہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی تہذیب ان ستوتوں پر استوار کی جائے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے ایسے حالات پیدا کئے جن میں پیغمبر (ص) مدینہ کی طرف ہجرت کرسکے اور اس نظام اور اس معاشرے کا قیام عمل میں لایا اور اس تہذیب کی بنیاد رکھی۔ وہ پوری مدت جس کے دوران پیغمبر اکرم (ص) نے اس جدید نظام کی بنیاد رکھی، اسے تعمیر کیا، اور تیار کرکے آگے بڑھایا 10 برسوں پر مشتمل ہے؛ یعنی ایک مختصر سی مدت۔

اس طرح کے واقعات عام طور پر حوادث و وقائع کے طوفانوں کی لہروں میں گم ہوجاتے ہیں، ختم ہوکر رہ جاتے ہیں اور فراموش ہوجاتے ہیں۔ دس سال کا عرصہ بہت ہی مختصر عرصہ ہے۔ لیکن پیغمبر اکرم (ص) اسی مختصر عرصے میں یہ درخت لگالیا، اس کی آبیاری کی اور اس کی نشوونما کے تمام اسباب فراہم کردیئے، ایک تحریک کی بنیاد رکھی جس نے ایک تہذیب کی تخلیق کی اور یہ تہذیب ایک مناسب زمانے میں انسانی تہذیب کی چوٹی پر فائز ہوئی۔ یعنی تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں اس دنیا میں، پوری دنیا میں، تہذیبوں کی قدامت، مقتدر حکومتوں اور گوناگوں تاریخی ورثوں کے باوجود کوئی بھی تمدن رونق اور عظمت کے حوالے سے اسلامی تہذیب و تمدن کے پائے پر نظر نہیں آیا ہے۔ یہ اسلام کا ہنر ہے۔

اور یہ ایسے حال میں ہے کہ نبی مکرمِ اسلام کے دور کے بعد، اس دس سالہ دور کے بعد، اسلامی امت کو گوناگوں اور تلخ حوادث کا بھی سامنا کرنا پڑا؛ رکاوٹیں پیش آئیں، اختلافات معرض وجود میں آئے، اندرونی لڑائیاں لڑائی گئیں۔ اس کے باوجود، کہ جو انحرافات زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ نمودار ہوئے، اسلام کی اس تحریک میں جو ناخالصیاں ظاہر ہوئیں اور پروان چڑھیں، پیغمبر اسلام (ص) اور بعثت کا پیغام تین چار صدیوں میں وہ عظمتیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ پوری دنیا اور پوری دنیا کی تمام تہذیبیں مسلمانوں کی اس تیسری اور چوتھی صدی کی تہذیب کی مرہوں منت ہیں۔ یہ ایک تجربہ ہے۔

اگر انسانی معاشرہ سوچ لے اور انصاف کو ملحوظ رکھے تو وہ اس بات کی تصدیق کرے گا کہ انسانیت کی نجات اور کمال کی جانب بنی نوع انسان کی پیشرفت، اسلام کی برکت سے ہی ممکن ہے و لاغیر۔ ہم مسلمانوں نے قدرشناسی کا حق ادا نہیں کیا، ہم نے نمک کھایا اور نمکدان توڑ دیا؛ ہم نے اسلام کی قدردانی کا حق ادا نہیں کیا؛ ہم نے ان بنیادوں کو اپنے پاس نہیں رہنے دیا جو پیغمبر اکرم (ص) نے ابھری ہوئی اور روبہ کمال معاشروں کے قیام کے لئے مقرر کررکھی تھیں؛ ہم نے ناشکری اور ناسپاسی کا ارتکاب کیا، اور ہمیں اپنے اس عمل کی سزا بھی ملی۔

اسلام یہ صلاحیت رکھتا تھا اور رکھتا ہے کہ بنی نوع انسان کو سعادت تک پہنچائے، کمال تک پہنچائے۔ وہ بنیادیں جو رسول اکرم (ص) نے رکھی تھیں وہ ایمان کی بنیاد، عقلیت کی بنیاد، مجاہدت کی بنیاد، عزت و عظمت کی بنیاد سے عبارت تھیں جو کہ اسلامی معاشرے کی اصلی بنیادیں ہیں۔

[ہمیں چاہئے کہ] اپنے دلوں اور اپنے عمل میں اپنے ایمان کو تقویت پہنچائیں، انسانی خِرَد اور عقل ـ جو انسان کے لئے اللہ کا عظیم ہدیہ ہے ـ سے بھرپور استفادہ کریں؛ جہاد فی سبیل اللہ کو ـ خواہ میدان جنگ میں، جب ضرورت پڑے، خواہ دوسرے میدانوں میں: سیاست کے میدان میں، معیشت کے میدان میںـ، مطمع نظر قرار دیں اور انسانی و اسلامی عزت و کرامت کے احساس کو اپنے لئے غنیمت سمجھیں۔

یہ چیزیں جب ایک معاشرے میں زندہ ہوجاتی ہیں، وہ معاشرہ اسی اسلامی حرکت و تحرک کو، اسلام کے نبی معظم (ص) کی اسی سمت اور اسی راستے پر چلنے کو، یقینی طور پر مقصد حیات بنا کر رکھے گا۔ اسلام کے پیغام کی برکت سے، امام بزرگوار (رحمة اللہ علیہ) کی ندا کی برکت سے، ہم ـ ملت ایران ـ اس حرکت کا ایک حصہ اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنا سکے ہیں؛ [اور] اس کے اثرات و ثمرات کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔

آج دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہوچکی ہے۔ یہ تحریکیں جو آج شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے بعض ممالک میں دیکھی جارہی ہیں، در حقیقت نورِ اسلام سے استفادہ اور روشنی حاصل کرنے اور پیغمبر اکرم (ص) کے دست مبارک کے ذریعے دکھائی گئی سمتوں سے فائدہ اٹھانے کا مصداق ہیں۔ چنانچہ ان علاقوں کا مستقبل، ان ممالک کا مستقبل ـ اللہ کی توفیق اور اللہ کی مدد اور حرکت و قوت سے، بالکل روشن ہے۔

مغربی طاقتیں بیہودہ ہٹ دھرمی پر اتری ہوئی ہیں، اپنے غلط موقف پر بیہودہ اصرار کررہی ہیں۔ جو کچھ آج مصر اور تیونس اور بعض دوسرے ممالک میں شروع ہوا ہے اور جو کچھ ان ممالک میں دیکھا جارہا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس علاقے کی تاریخ کا ورق پلٹ گیا ہے اور نئے زمانے کا آغاز ہوچکا ہے۔ جو غلط موازنہ گذشتہ ایک صدی سے، ڈیڑھ صدی سے مغربی مستکبرین اور مغربی سامراجیوں نے علاقے میں قائم کر رکھا تھا اور اس کو اس عظیم اور حساس خطے کے مقدرات پر مسلط کرنا چاہتے تھے، بگڑ چکا ہے؛ نیا موسم شروع ہوچکا ہے۔

تاہم آج مغرب کی مستکبر طاقتیں عناد اور ہٹ دھرمی دکھا رہی ہیں؛ اس عظیم اور ناقابل انکار حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرنا چاہتیں کہ اقوام جاگ اٹھی ہیں، علاقے کی قومیں اسلام کی طرف لوٹ آئی ہیں؛ لیکن حقیقت یہی ہے۔ مسلم ممالک میں اسلام کا سانس پھونکا گیا ہے۔ امریکہ اور مغرب کے وابستگان اور ان کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے ان ملتوں کے ساتھ کچھ ایسا سلوک روا رکھا ہے کہ ان ملتوں نے محسوس کیا کہ قیام، عظیم عوامی تحریک اور انقلاب کے سوا ان کے پاس مزید کوئی راستہ نہیں ہے؛ لہذا یہ قومیں اس راستے پر گامزن ہوئیں اور اس راستے پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ تحریکیں یقینی طور پر نتیجہ خیز ثابت ہونگی۔ گوکہ مغربی قوتیں بڑی کوششیں کررہی ہیں۔ آج امریکہ اور علاقے میں اس کے بعض غلاموں کی تمام تشہیری، سیاسی اور معاشی مشیینریاں فعال ہوگئی ہیں کہ ان عوامی انقلابات کو اور ان عظیم تحریکوں کو ان کی اصلی سمت سے منحرف کردیں؛ ان کے اسلامی پہلو کو چھپا دیں، مخفی کرکے رکھیں، اور اس پہلو کا انکار کریں؛ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ نکالیں جو لوگوں کو دھوکہ اور فریب دے کر بر سر اقتدار آسکیں اور تمام قواعد اور فارمولوں کو ایک بار پھر مغرب کے مفاد میں پلٹا سکیں؛ وہ یہ کوششیں کررہے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ قومیں [خواب غقلت سے] بیدار ہوچکی ہیں۔

جب ایک قوم بیدار ہوگئی، جب ایک قوم میدان عمل میں اتر گئی، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دی اور سامنے آئی اسے لوٹایا نہیں جاسکتا، اسے فریب نہیں دیا جاسکتا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دشوار گذار تحریک اٹھی ہوئی قوموں میں بھی اور ان قوموں میں بھی جن میں عوامی تحریکوں کا عنصر پایا جاتا ہے، انشاء اللہ جاری رہے اور یہ راستہ مختصر سے مختصر ہوجائے۔ نتیجہ قطعی اور حتمی ہے؛ ہوسکتا ہے کہ راستہ دشوار گذار اور طویل ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راستہ مختصر ہو۔

آج امریکی صہیونیوں کی مدد سے، علاقے میں اپنے حلیفوں اور نوکروں کی مدد سے ان انقلابات کو منحرف کرنے اور ان پر مسلط ہونے اور ان کی پیدا کردہ لہروں پر سوار ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس کی تمام کوششیں بے سود ہیں۔ گو کہ وہ قوموں کے لئے دشواریاں پیدا کریں گے ـ یہ دشواریاں فطری ہیں ـ اختلافات کو ہوا دیں گی؛ ہم نے ان تمام مسائل کا تجربہ کیا ہوا ہے۔ ہمارے انقلاب میں بھی انھوں نے اختلاف انگیزیاں کیں، نفوذ کیا، اقوام و قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف اکسایا، اندرونی جھگڑے پیدا کئے، ایک بیرونی دشمن کو اکسایا کہ وہ آکر ہم پر فوجی میدان میں حملہ کردے، لشکر کشی کرے، یہ سارے واقعات رونما ہوئے، لیکن ہماری ملت ڈٹی رہی، اپنی تحریک کو پوری قوت سے جاری رکھا، ان تمام مسائل پر غالب آئی اور اس کے بعد بھی [ان سازشوں پر] غالب آتی رہے گی۔ چنانچہ یہ مشکلات موجود ہیں۔

آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ مصر اور دوسری جگہوں میں اندرونی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں، جھگڑوں کے اسباب فراہم کررہے ہیں، یقینی امر ہے کہ دہشت گردانہ حملوں اور فتنہ انگیزیوں کا آغاز بھی کریں گے۔ ان سارے مسائل کا علاج یہی عوامی بیداری، مفکرین اور اہل دانش کی بیداری، علمی شخصیات، سیاسی شخصیات، دلسوز اور ملکی مقدرات کا درد رکھنے والے حکام کی بیداری ہے۔ ان سب کو بیدار رہنا چاہئے، خیال رکھیں اور ہوشیاری کے ساتھ نگرانی کریں اور انشاء اللہ یہ تحریکیں بہترین صورت میں جاری رہیں گی۔ یہ وہی بعثت پیغمبر (ص) اور نبوی تحریک کا تسلسل ہے جو آج کے زمانے میں اس شکل میں نمودار ہورہا ہے۔

مظلوم اقوام اپنی عظمت و وقار چاہتے ہیں؛ وہی عظمت و عزت و وقار جو پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد اور [اور ایک ستون] ہے۔ طویل برسوں کے دوران دشمنوں، مستکبرین، قابضین اور مداخلت کرنے والی قوتوں نے ہماری ملتوں کا استحصال کیا اور اسی حال میں ان کی تذلیل اور تحقیر کی، انہیں ذلیل کیا۔ قومیں جب اسلام سے بہرہ مند ہوں [اور انھوں نے اسلام سے فائدہ اٹھایا ہو] وہ عزت و عظمت چاہتی ہیں، کرامت اور وقار چاہتی ہیں۔ یہ وہی اسلامی تحریک ہے۔ اسلامی تحریک کا مطلب یہی ہے۔

ہم مسلم اقوام کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ اسلامی ممالک کے مفکرین اور اہل دانش کو بیدار رہنا چاہئے؛ انہیں بے مقصد اور کم اہمیت رکھنے والی کشمکش میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے؛ مذہبی اختلافات، قومی و قبائلی اختلافات، [ذاتی یا جماعتی] ترجیحات میں اختلافات اور حاشیائی اور غیر اہم بحثوں میں نہیں الجھنا چاہئے۔ جو کچھ اس علاقے میں وقوع پذیر ہورہا ہے، اس کی عظمت ان مسائل سے کہیں زیادہ ہے۔

ہم ملت ایران کی حیثیت سے خوشی ہے اور ہم راضی اور خوشنود ہیں کہ مسلم اقوام آگے کی طرف بڑھ رہی ہیں اور اپنی آزادی اور کرامت و وقار کو حاصل کررہی ہیں۔ ایران میں اس انقلاب کی پیدائش اور آغاز سے ہی علاقائی مسائل، علاقائی تحریکوں اور علاقائی انقلابات کے حوالے سے انقلاب کا موقف بالکل واضح و روشن رہا ہے۔ جہاں بھی استکبار کے خلاف کوئی حرکت ہو، صہیونیت کے خلاف کوئی قیام ہو، عزیز مملکت فلسطین میں غاصب صہیونی ریاست کے خلاف قیام ہو، یہ تحریک اور قیام مقبول اور پسندیدہ ہے اور اس کو ہماری حمایت اور تأئید حاصل ہے۔ جہاں بھی امریکہ کے خلاف کوئی تحریک ہو، جہاں بھی بین الاقوامی آمریت (International Dictatorship) کے خلاف کوئی تحریک ہو ـ جیسا کہ آج کل امریکہ نے دنیا میں ایک بین الاقوامی سطح پر ایک آمریت کی بنیاد رکھی ہوئی ہے ـ، جہاں بھی ممالک کے اندرونی آمروں کے خلاف کوئی تحریک ہو، اور اس تحریک کا مقصد قوموں کے حقوق حاصل کرنا ہو، ہم اس کے ساتھ ہیں۔

انہیں ہوشیار رہنا چاہئے؛ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، قوموں کو بھی ہوشیار رہنا چاہئے اور انہیں جان لینا چاہئے کہ دشمنوں کے دسیسے اور ان کے حیلے اور ان کی سازشیں مختلف النوع اور پیچیدہ ہیں۔ ہم سب کو چاہئے کہ بصیرت کو اپنے کام کا معیار قرار دیں۔ ملتوں کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ امریکی اور صہیونی اور ان کے غلام اور ان کے ساتھی انقلابات کو منحرف کرنے کی کوششیں کررہے ہیں؛ ان کی توجہ ان ممالک پر مرکوز ہے جن میں بیداری کی لہریں رونما ہوئی ہیں؛ وہ جہاں تک ممکن ہو ان ملتوں کی تحریکوں کو منحرف کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔

بحرین کی مظلوم ملت بھی مصر کی ملت کی طرح ہی ہے، تیونس کی ملت کی طرح ہی ہے، یمن کی ملت کی طرح ہی ہے؛ بحرین میں بھی یہی قضیہ ہے؛ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا بے معنی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ لوگ جنہیں ملتوں کی دل کی بات سننی چاہئے افسوس کا مقام ہے کہ وہ ایسی راہ پر گامزن ہیں، ایسی حرکتیں کررہے ہیں جن کا آغاز ان ملتوں کے دشمنوں نے کیا ہوا ہے۔ آج امریکہ شام میں مصر، تیونس، لیبیا، یمن اور دوسرے ممالک میں ہونے والے واقعات کی نقلی صورت تعمیر کرنے میں مصروف ہے اور شام ـ جو [علاقے میں صہیونیت اور امریکہ کے سامنے] مزاحمت کا اگلا محاذ ہے ـ کو مشکلات سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ [حیقیقت یہ ہے کہ] شام کے قضیئے کی نوعیت ان ممالک کے قضیئے سے بالکل مختلف ہے۔ ان ممالک میں تحریک امریکہ اور صہیونیت کے خلاف تھی جبکہ شام میں امریکہ کا ہاتھ بخوبی واضح و آشکار ہے، صہیونی اس قضیئے کی پیروی کررہے ہیں۔ ہمیں غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں معیار کو نہیں بھولنا چاہئے۔ جس جگہ تحریک امریکہ اور صہیونیت کے خلاف ہو وہ تحریک سچی اور حقیقی اور عوام تحریک ہے؛ جس ملک میں نعرے ہی امریکہ اور صہیونیت کے حق میں اٹھ رہے ہیں، وہ تحریک انحرافی تحریک ہے۔ ہم یہ منطق، یہ بیان اور ہدایت گری جاری رکھیں گے اور اس کا تحفظ کریں گے۔

البتہ ہمیں معلوم ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے دشمن غضبناک ہوجاتے ہیں، انہیں غصہ آتا ہے، ہمارے خلاف اپنی سازشوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم نے ان سازشوں کے مقابلے میں استقامت اور ثابت قدمی دکھائی ہے، ہماری ملت کارآزمودہ ہوگئی ہے۔ ملت ایران ان تیس برسوں میں مختلف النوع سازشوں کے مقابل ثابت قدمی اور استقامت دکھا چکی ہے، تجربہ کار اور کارآزمودہ ہوگئی ہے۔ وہ [استکباری قوتیں] بعض اندرونی مسائل کو سامنے رکھ کر خوش ہوا کرتی ہیں اور خوشیاں مناتی ہیں۔

خوش قسمتی سے ملک کے مختلف ادارے، امید اور شوق کے ساتھ اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ ان حالیہ ایام میں، اسی حالیہ برس کے دوران، آپ دیکھیں کہ اس ملک میں کتنے عظیم کارنامے انجام پائے ہیں۔ ہم تیل کی مصنوعات درآمد کرنے والے ملک سے یہ مصنوعات برآمد کرنے والے ملک میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ مختلف شعبوں میں بحمد اللہ ملک مصروف عمل ہے۔ یہی حکومت کو چھوٹا کرنے والا مسئلہ ـ یہی اقدام جو حکومت اور پارلیمان نے مل کر سرانجام دیا ـ بہت اہم اور عظیم کارنامہ ہے؛ اس طرح کے کارناموں کو جاری رکھنا چاہئے اور انشاء اللہ یہ جاری رہیں گے۔

ملت ایران نے اپنی استقامت کے ذریعے، اپنی مقاومت کے ذریعے، اپنے اتحاد کے ذریعے، خدا کی امداد پر بے انتہا امید کے ساتھ ملک کی ذمہ دار شخصیات کی وحدت و اتحاد، باہمی تعاون کے ساتھ انشاء اللہ ایک بار پھر ملت ایران کے دشمنوں کی امیدوں کو ناامیدی اور مایوسی میں تبدیل کرے گی۔

اللہ تعالی سے التجا کرتے ہیں کہ اس ملت پر اپنی برکات فراوان کے نزول میں اضافہ فرمائے؛ اس شریف دن اور اس مبارک عید کی برکت سے اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقدس وجود کے احترام کے صدقے، انشاء اللہ ملت ایران اور مسلمان ملتوں کو اپنے فضل و کرم اور نصرت عطا فرمائے اور ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرمائے۔

 والسّلام عليكم و رحمةاللہ و بركاتہ