• صارفین کی تعداد :
  • 725
  • 7/18/2011
  • تاريخ :

امریکی اھداف اور علاقائی خدشات

سوالیہ نشان

افغانستان گذشتہ تین دھائیوں سے جنگ  کا میدان بنا ہوا ہے اور اس معرکہ میں شامل قوتیں اپنے مطلوبہ اھداف کو حاصل کرنے کے لیۓ اس خطے  کو مزید غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوۓ نظر آ رہے  ہیں ۔

9/11 سے آج دس برس بعد، کم وبیش ایک ٹرلین ڈالرز صرف کر نے کے بعد جو نتیجہ دیکھنے میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ افغان قوم پرستی کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے، شورش پسندی کے خلاف اقدامات دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں بدل چکے ہیں ، فوجوں کی تعداد بڑھانے کے بعد واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور تمام طالبان، اچھے یا برے، کا شمار تاحال مرحومین میں نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ اہم طالبان رہنماؤں کو ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنا کر اُ ن کی مزاحمت کو کم کیا جا رہا ہے تا کہ وہ کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کو قبول کر تے ہوئے اس میں شرکت کر سکیں۔ تاہم یہ تبدیل شدہ حکمت ِ عملی دو وجوہات کی بنا پرکامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہی ہے: پہلی وجہ یہ ہے کہ2014 کے بعد کے جس افغانستان کا تصور امریکیوں نے دیکھا ہے وہ اُن دو عوامل پر مبنی ہے جو استحکام پذیر ہونے کی بجائے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ پہلا یہ کہ کسی ایسی افغان فورس کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے جو امریکی مفاد کا تحفظ کرے ۔ اس فورس میں طالبان کی خفیہ شمولیت نے اس کی افادیت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ دوسری یہ کہ امریکہ یہاں کوئی ایسی مضبوط اور مستحکم حکومت قائم نہیں کر سکا ہے جو اُن کے جانے کے بعد ملک کو طالبان کے اثر سے بچا سکے۔ اس کے حالیہ دنوں میں بہت سے ثبوت سامنے آئے ہیں: شمالی افغانستان کے پولیس سربراہ جنرل داؤد داؤد کا دوماہ قبل قتل، حامد کرزئی کے طاقتور اتحادی اور بھائی احمد ولی کرزئی کی ہلاکت اور اُسی دن وزیر داخلہ بسم الله محمدی پر ناکام قاتلانہ حملہ شامل ہے۔ امریکہ کے حامی حامد کرزئی جتنے کمزور آج ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔

دوسرا اہم عامل پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کا فاٹا میں القاعدہ کے حامی طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے راضی نہ ہونا ہے۔

پاکستان کیلئے گاجر اور ڈنڈے (ترغیبات اور دھمکی ) کی پالیسی جو مالی امداد( جس کو مونگ پھلی کا چھلکا قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی مد میں پاکستان کو گزشتہ دو برسوں میں مختص کردہ تین بلین ڈالرز میں سے صرف 800 ملین ذالرز ملے ہیں) جبکہ اسی دوران افغانستان میں 200 بلین ڈالرز صرف کردیے گئے ہیں اور امریکہ نے پاکستان کی جائز تشویش سے صرف ِ نظر کیا ہے کہ اُسکے جانے کے بعد پاکستان کو اگر دوستانہ نہیں بھی تو کم از کم ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان چاہیے۔

امریکہ کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے، بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں کارروائی اور فاٹا میں ڈرون حملوں میں مسلسل اضافے جیسی یک طرفہ کارروائیوں نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دی ہے اور پاکستانی فوج کے لیے عوام کی نظروں میں ناراضگی کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔ اب امریکی بے صبری اور تکبر میں آئی ایس آئی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں (اس پر عوامی سطح پر صحافی سلیم شہزاد کے قتل کا الزام لگانا اور نیویارک ٹائمز کی طرف سے جنرل شجاع پاشا صاحب کی برطرفی کا مطالبہ کرنا) اور پاک فوج کو ملنے والی 800 ملین ذالرز کی امداد ، جو طالبان کے خلاف کارروائیوں میں پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کے لیے تھی، کو روکنا گویا زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

پاکستان ،جو مسلسل انڈیا کے خطرے کو اپنا بنائے ہوئے ہے اور اسی کی پیش بندی کے طور پر افغان طالبان کو اپنا ”اثاثہ “سمجھتا ہے ، یہ بات بھول جاتا ہے کہ یہی طالبان اُس وقت بھی مسلہٴ تھے جب ملاعمر کی حکومت تھی اور طالبان ڈیورنڈ لائن کو پاکستان کا بین الاقوامی بارڈر سمجھ کر احترام نہیں کرتے تھے اور نہ ہی وہ انتہا پسند عناصر جو پاکستان میں کارروائیاں کر کے افغانستان میں پناہ لیتے تھے ، کو ہمارے حوالے کرتے تھے۔ القاعدہ اگرچہ امریکہ اور پاکستان، دونوں کیخلاف سازش کر رہی تھی، کیخلاف ملا عمر کی حکومت نے نہ تو کوئی اقدامات کیے اور نہ ہی اُس سے تعلقات توڑے۔اسی طالبان ”اثاثے “ نے القاعدہ کے ساتھ مل کر تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا ہے جس نے گزشتہ دو برسوں میں35,000 عام پاکستانیوں اور 3000 سے زائد فوجیوں کا سوات اور فاٹا میں خون بہایا ہے۔

باخبر مقتول صحافی سلیم شہزاد نے بھانپ لیا تھا کہ القاعدہ سے منسلک طالبان کا اصل مقصد پاکستانی ریاست میں سرائیت کرکے اس کو بھارت کے ساتھ محاذ آرائی میں الجھانا (ممبئی حملے جیسے کچھ نئے واقعات) ، فوج کی حربی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانا اور اس کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرنا اور اس سرزمین کو عالمی اسلامی انقلاب کا مرکز بنانا ہے۔ اگر ہم ملا عمر کے رکارڈ کا جائزہ لیں ، حقانی نیٹ ورک کے القاعدہ کے ساتھ الحاق کو دیکھیں اور القاعدہ کے مستقبل کے عزائم کو نگاہ میں رکھیں تو پاکستانی فوج کے ان عناصر کے ساتھ تعلقات اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی بین الاقوامی برادری، خاص طور پر امریکہ، کے لیے قابل ِ قبول نہیں ہو گی اور پاکستان ان کے ساتھ دشمنی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے

موصولہ رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے ترجمان مائیکل وون نے کہا ہے کہ افغانستان کے صوبۂ پروان میں تعینات امریکہ کے تقریبا چھ سو پچاس فوجی اس صوبے سے نکل چکے ہیں  اور افغانستان میں موجود امریکہ کے تقریبا آٹھ سو فوجی رواں مہینے کے آخر تک اس ملک سے نکل جائيں گے۔ افغانستان میں نیٹو کے پریس آفس نے بھی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی تصدیق کردی ہے۔ دریں اثناء نیٹو نے اعلان کیا ہےکہ وہ افغانستان میں ہلاک ہونے والے چھ عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں تحقیق کرے گی۔

موصولہ رپورٹ کے مطابق نیٹو نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں آیا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبۂ خوست میں اپنے فوجیوں کی کارروائی کے دوران مارے جانے والے چھ افغان شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں تحقیق کرے گی۔ واضح رہے کہ جمعرات کے دن صوبۂ خوست میں نیٹو کے فوجیوں کے آپریشن میں چھ افغان شہری جاں بحق ہوگۓ تھے جن میں ایک گیارہ سالہ بچی بھی شامل ہے۔ نیٹو نے اس سے قبل کہا تھا کہ اس کارروائی میں صرف ایک عام شہری زخمی ہوا ہے ۔ لیکن افغان صدر حامد کرزئي کی جانب سے اس آپریشن کےبارے میں تحقیق کۓ جانے کے حکم کےبعد نیٹو نے اس کارروائی کے سلسلے میں تحقیق کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دریں اثناء افغانستان کے صوبۂ ہلمند میں پانچ عام شہری جاں بحق ہوگۓ ہیں۔ صوبۂ ہلمند کے سنگین علاقے میں ایک مسافر بس سڑک کے کنارے نصب ایک بم سے ٹکرا گئي جس کے نتیجے میں ایک زور دار بم دھماکہ ہوا ۔ اس بم دھماکے میں کم از کم پانچ افغان شہری جاں بحق ہوگۓ ہیں۔ ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا ہےکہ طالبان جنگوؤں نے صوبۂ خوست میں واقع صبری شہر کے قریب امریکی فوجیوں کا ایک ٹینک تباہ کردیا ہے۔ اس حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک ہوۓ ہیں۔

شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان