• صارفین کی تعداد :
  • 794
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

قوميت کي تعمير ميں زبان کي اہميت (حصّہ سوّم)

سوالیہ نشان

قوميت کي تعمير ميں ادب کا خاص کردار ہوتا ہے ادب کسي بھي زبان، تہذيب ملک اور زمانے کے بہترين افکار کا تحريري منظرنامہ ہوتا ہےاور اس زبان، تہذيب ملک اور زمانہ کا پورا ماحول اس کے اندر بولتا ہے- اردو اس اعتبار سے بہت ثروت مند ہے کہ اس ميں ہماري انفرادي اور اجتماعي زندگي کے عناصر شعور امنگيں اور احوال ايک ادبي قرينے (Literal Organization) اور تخليقي شائستگي اور شکوہ (Eative Decorum) کے ساتھ ملتے ہيں- اردو ادب اپنے تاريخي اور ارتقائي سفر ميں برصغير پاک و ہند ميں رہنے والي سبھي چھوٹي بڑي قوميتوں کے اجتماعي احوال و افکار کا مظہر ہے- اس کي تخليق اور فروغ ميں اس جغرافيے ميں بسنے والے تمام اہل قلم، اديبوں، شاعروں اور تخليق کاروں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے امير خسرو سے لے کر عہد حاضر تک مسلمان اور ہندو اديبوں کي ايک طويل فہرست ہے جنہوں نے اردو ادب کي آبياري کي ہندومسلم تہذيب و معاشرت کے عناصر اور مذہبي عقائدورسومات کي بھرپور عکاسي اردووشعر و ادب ميں موجود ہے امير خسرو سے منسوب قديم شعري نمونوں دوہوں اور دوسرے نظم پاروں سے لے کر نظير اکبر آبادي تک ميں اس مخلوط معاشرت کي جھلکياں بہ آساني ديکھي جاسکتي ہيں جو برصغير پاک و ہند ميں ہندوۆ ں اور مسلمانوں کے باہمي رشتوں اور تعلقات کي مظہر ہيں يہ سلسلہ انيسويں صدي کے آخر تک نماياں طور پر نظر آتا ہے ليکن بيسويں صدي کے آغاز ميں سياسي بيداري کے سبب اردو ادب ميں قومي اور ملي شعور کا ايک اور دھارا زيادہ نماياں ہوا جو پہلے دو قومي نظريہ اور بعد ميں پاکستان کي صورت ميں ظاہر ہوا-

قومي اور ملي شعور کا يہ تشخص اپني ايک مخصوص تاريخي پس منظر رکھتا ہے بہت سے اہل قلم نے 1859ء کي جنگ آزادي کے بعد مسلمانوں اور ہندوۆ ں ميں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پيش نظريہ محسوس کرنا شروع کرديا تھا کہ سياسي بيداري اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتيجہ ميں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے- مولانا حالي نے حيات جاويد ميں سرسيد کے حوالے سے بھي ان خدشات کا اظہار کيا ہے ان کے خيال ميں سرسيد احمد نے 1867 ميں ہي اردو ہندي تنازعہ کے پيش نظر مسلمانوں اور ہندوۆ ں کے عليحدہ ہوجانے کي پيش گوئي کر دي تھي- انہوں نے اس کا ذکر ايک برطانوي افسر سے کيا تھا کہ دونوں قوموں ميں لساني خليج وسيع ترہوتي جارہي ہے- اور ايک متحدہ قوميت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہيں- اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوۆ ں کي راہيں جدا ہوجائيں گي- (7)

اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالسلام خورشيد کا يہ اقتباس بھي ملاحظہ کريں- جس ميں مسلمانوں کے جداگانہ ملي تشخص کے ساتھ ساتھ ہندوانہ تعصب کي بات بھي کي گئي ہے-

موجودہ حالات ميں تقسيم ہند ہي مسئلہ کا واحد حل ہے کيونکہ ہم مسلمان اپني جداگانہ ثقافت، تہذيب، زبان، ادب، آرٹ اور فن تعمير، قوانين اور اخلاقي ضابطوں، رسوم، کيلنڈر، تاريخ اور روايات اور ہر لحاظ سے ايک عليحدہ قوم ہيں ہندوستان کبھي بھي ايک کامل نہيں رہا جس گائے کو ميں کھانا چاہتا ہوں ہندو اسے ذبح کرنے سے منع کرتے ہيں حديہ ہے کہ جب بھي کوئي ہندو مجھ سے ہاتھ ملاتا ہے تو اسے بعد ازاں اپنا ہاتھ صاف کرنا پڑتا ہے- (8)

علامہ اقبال کے افکار خصوصاً الہ آباد (1930) نے اس تصور کو زيادہ نماياں کيا اور اسے ايک ٹھوس تاريخي اور سياسي نظريہ کي صورت دي مسلم پريس، اديبوں اور دانشوروں کي تحريروں، سياسي رہنماۆ ں کي تقريروں اور مسلمانان ہند کے اجتماعي شعور نے اس نظريہ کي آبياري کي اور يوں اردو ادب کا تخليقي دھارا قيام پاکستان سے پہلے ہي ہندوستاني مسلمانوں کے افکاروعقائد اور تہذيب و معاشرت کي ترجماني کا فريضہ سرانجام دينے لگا  (9)

يوں پاکستان کے قيام سے قبل کے شعروادب کے اندر ہندوستاني مسلمانوں کي جداگانہ قوميت کي چھاپ واضح طور پر سنائي دينے لگي تھي- ہندوۆ ں کے سياسي قائدين کا تعصب آزادي ہند کے بعد بھي جاري رہا سيکولرازم کے دعوۆ ں کے باوجود وہاں اقليتيں ہميشہ رياستي ہندوانہ جبراور تشدد کاشکار ہيں- ہندوستان ميں اب تک ايسے ہزاروں مسلم کش فسادات ہوچکے ہيں جن ميں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنايا گيا ان کي املاک لوٹي گئيں عورتوں کي آبروريزي کي گئي اور انہيں قتل کيا گيا- کہنے کو انڈيا سيکولر سٹيٹ ہے مگر يہ سيکولرازم بھي برائے نام ہے- بھارتي صحافت وسياست ميں سيکولرازم کي بات تو ہوتي ہے مگر حيرت کي بات ہے کہ 1976 تک يہ لفظ بھارتي آئين کا حصہ نہ بن سکا- سيکولرکا لفظ دسمبر 1976 ميں ايک ترميم کے ذريعے بھارتي آئين کے ديباچے ميں رسما شامل کرديا گيا مگر اس کي ضروري تفصيل و تعريف سے گريز کيا گيا- يہ ترميم ملاحظہ ہو-

The Declaration by the 42nd Amendment inserting the word Secular in the preamble amounts to this effect ‘we the people of India Constitute India into a Socialist Secular State as we declare so on 18th December 1976’. (10)

قيام پاکستان کےبعد اردو ادب ميں ملي رجحانات کے خدوخال زيادہ نماياں ہونے لگے اور اردو ادب ميں نماياں طور پر ايک ايسے تخليقي رجحان کا آغاز ہوا جسے پاکستانيت سے موسوم کيا جاسکتا ہے- پاکستانيت کے عناصر اردوکے علاوہ پاکستان کي دوسري زبانوں کے ذريعے بھي فروغ پذير ہوئے- اور مسلسل پروان چڑھ رہے ہيں- سندھي ادب سيمينار جام شورو (منعقدہ 1984ء) ميں سندھ کے عظيم محقق ڈاکٹر نبي بخش بلوچ اپنے صدارتي خطبے ميں پاکستاني ادب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ

"پاکستاني ادب کيا ہے پاکستاني ادب اردو اور ملک کي دوسري زبانوں کا مشترکہ سرمايہ ہے ادب کے دائرے ميں پاکستان کي سب زبانيں ہماري اپني زبانيں ہيں اس ليے فقط اردو ادب کو قومي کہنا عقلمندي کي بات نہيں کيونکہ اسي سبب سے يہ اثر پختہ ہوجائے گا کہ ملک کي دوسري زبانوں کے ادب کو قومي ادب نہيں سمجھا جاتا اس سوچ کا يہ نتيجہ نکلے گا کہ اردو ملک کي دوسري زبانوں سے نفسياتي طور پر الگ ہوتي رہے گي-

پاکستاني ادب ملک کي جملہ زبانوں کا مشترک خزانہ ہے اگر ہم خلوص دل سے وطن دوست بن کر لساني برادري اور رواداري کے اس نظريہ پر عمل کريں گے اور اس کو آگے بڑھائيں گے- تو ملک کي جملہ زبانوں کے ادب کو پاکستاني ادب کے دائرے ميں ايک قابل فخر مقام حاصل ہوگا-"


 متعلقہ تحريريں :

ساقي اٹھ تلوار اٹھا