• صارفین کی تعداد :
  • 736
  • 11/21/2011
  • تاريخ :

سلام

محرم الحرام

سلام اسے کہ اگر بادشا کہيں اُس کو

تو پھر کہيں کہ کچھ اِس سے سوا کہيں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں، يہ کيا ستائش ہے؟

کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہيں اُس کو

خدا کي راہ ميں شاہي و خسروي کيسي؟

کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہيں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا

اگر کہيں نہ خداوند، کيا کہيں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ايماں، حسين ابنِ علي

کہ شمعِ انجمنِ کبريا کہيں اُس کو

کفيلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہيں پڑتي

اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہيں اُس کو

مسيح جس سے کرے اخذِ فيضِ جاں بخشي

ستم ہے کُشتہء تيغِ جفا کہيں اُس کو

وہ جس کے ماتميوں پر ہے سلسبيل سبيل

شہيدِ تشنہ لبِ کربلا کہيں اُس کو

عدو کے سمعِ رضا ميں جگہ نہ پاۓ وہ بات

کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہيں اُس کو

بہت ہے پايہء گردِ رہِ حسين بلند

بہ قدرِ فہم ہے اگر کيميا کہيں اُس کو

نظارہ سوز ہے ياں تک ہر ايک ذرّہء خاک

کہ ايک جوہرِ تيغِ قضا کہيں اُس کو

ہمارے درد کي يا رب کہيں دوا نہ ملے

اگر نہ درد کي اپنے دوا کہيں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دَيں اس کے حُسنِ صبر کي داد؟

مگر نبي و علي مرحبا کہيں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے ميں ہے کہ اہلِ يقيں

پس از حسينِ علي پيشوا کہيں اُس کو

وہ ريگِ تفتہء وادي پہ گام فرسا ہے

کہ طالبانِ خدا رہنما کہيں اُس کو

امامِ وقت کي يہ قدر ہے کہ اہلِ عناد

پيادہ لے چليں اور ناسزا کہيں اُس کو

يہ اجتہاد عجب ہے کہ ايک دشمنِ ديں

علي سے آکے لڑے اور خطا کہيں اُس کو

يزيد کو تو نہ تھا اجتہاد کا پايہ

بُرا نہ مانيۓ گر ہم بُرا کہيں اُس کو

علي کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسين

کرے جو ان سے بُرائي، بھلا کہيں اُس کو؟

نبي کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے

رکھے امام سے جو بغض، کيا کہيں اُس کو؟

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام ميں درد

غلط نہيں ہے کہ خونيں نوا کہيں اُس کو

شاعر کا نام: مرزا غالب

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


 متعلقہ تحريريں :

قوميت کي تعمير ميں زبان کي اہميت (حصّہ پنجم)