• صارفین کی تعداد :
  • 964
  • 11/28/2011
  • تاريخ :

بيسويں صدي کي آخر دو دہائيوں ميں اُردو ناول کے موضوعات و رجحانات (پانچواں حصّہ)

کتاب        

"راکھ" (1997ء) ميں مستنصرحسين تارڑ نے سقوط ڈھاکہ کو اپنے جذبات ميں ڈھالا ہے-

"تم ميري ڈارلنگ بھرجائي آگاہ ہو کہ اس دسمبر کے بعد ميں ہميشہ فرش پر سوتا ہوں - - - - - اس ميں شايد ميري تاريخ کا جبر شامل ہو - - - - - - - ميں اپنے آپ کو اس قابل نہيں پاتا کہ پروقار طريقے سے ايک چارپائي پر سو سکوں-"

بانو قدسيہ کا "راجہ گدھ" (1981ء) موضوع کے لحاظ سے تو منفرد ہے ليکن زبان بھي بے حد رواں اور سليس ہے بانو نے ثقيل الفاظ سے اجتناب برتا ہے- چونکہ ناول کا زمانہ جديد ہے اور اس کے کردار اعليٰ تعليم يافتہ لوگوں پر مشتمل ہيں اس لئے وہ اپني گفتگو ميں انگريزي زبان کے الفاظ بکثرت استعمال کرتے ہيں- اردو زبان کے متبادل لفظ کو استعمال نہ کرکے انہوں نے فضا ميں مصنوعي پن نہيں آنے ديا-

"ہائے پتہ ہے قيوم مجھے پروفيسر سہيل نے بڑا Disappoint کيا-وہ ميرے ہزبنڈ کے ساتھ يونيورسٹي ميں ہيں آج کل ياد ہے ناں ہم سب ان کو کتنا Idealize کيا کرتے تھے"-

ميں تو اب بھي انہيں پوجتا ہوں-"چھوڑو بڑے تکليف دہ آدمي ہيں بڑي بڑي باتيں کرتے ہيں اور اتنا  چھوٹا Behave کرتے ہيں واقعي؟ ذرا نالج نہيں سارا Mass Media  بولتا ہے-"

بانو قدسيہ کاہي "حاصل گھاٹ" (2003ء) بھي اسلوب کے اعتبار سے ايک مکمل نئے دور کي پيداوار ہے اس ناول ميں مسائل کا دائرہ کار بڑھ کر لاہور سے امريکہ تک پہنچ گيا ہے- مثلاً جمند کہتي ہے:

"ہم ايک دن Leaf Over’s کھاتے ہيں اور سنڈے کو ميں کوکنگ کرتي ہوں اور سارے ہفتے کي Dishes تيار کرکے فريزر ميں رکھ ديتي ہوں- ميرا خيال ہے آپ مائينڈ نہيں کريں گے ديکھيے ناں مجھے بھي

کام پر جانا ہوتا ہے- آپ فريزر ميں سے کچھ نہ نکاليں اور جو کچھ فريج ميں رکھا ہوا ہے آپ مائيکرو ويواون ميں ڈال کر گرم کرليں ہم ڈسپلن سے Organize ہوکر زندگي گزارتے ہيں"-

تيزرفتاري، مادہ پرستي امريکہ کا جارحانہ رويہ يہ سب ہمارے نئے آنيوالے ناول کا موضوع ہے جس ميں واپس اپني جڑوں کي تلاش اور اپني مٹي کي طرف لوٹ جانے کا ارادہ پسِ پردہ ظاہر ہوتا ہے- ديہات کي زندگي کو سکون کے حوالے سے اہميت دي جا رہي ہے اور علاقائي تشخص کي اہميت پر زور ديا جا رہا ہے-

امريکہ کے سپر پاور ہونے اور تمام دنيا پر اپني مرضي مسلط کرنے کے رجحان کو ناولوں ميں بھر پور انداز ميں پيش کيا جا رہا ہے- "حاصل گھاٹ" کے علاوہ مستنصر حسين تارڑ کے "قلعہ جنگي" (2004ء) ميں بھي بين الاقوامي صورتحال کا منظر پيش کيا گيا ہے- خطے ميں رونما ہونے والے تغيرات، طالبان، پاکستان، امريکہ اور 11 ستمبر يہ سب اس ناول کے مختلف پہلو ہيں- چند سر پھرے نوجوانوں کے حوالے سے جہاد کے تصور کو يوں پيش کيا ہے-

"ہاں ميں يہ بھي جانتا ہوں کے يہ ايک ہاري ہوئي جنگ ہے پھر بھي لڑنا  چاہتاہوں تصور کامل ہميشہ ہار جاتا  ہے- - - - - - اگر وہ جيت جائے توتصور کامل نہيں ہوتا - - - - - اس کے لئے مرنے والوں کي موت مکمل ہوتي ہے جب کہ جيت جانے والے ہميشہ بے يقين موت مرتے ہيں-"

تارڑ کے ناول زبان و بيان کے لحاظ سے بھي اپني الگ پہچان رکھتے ہيں- خصوصاً "بہاو" (1992ء) "راکھ" (2001ء) "قربتِ مرگ ميں محبت" (1997ء) کے حوالے سے ہم پنجابي الفاظ کي ايک لغت تيار کرسکتے ہيں- تارڑ کے ناولوں ميں پورا پنجاب جھلکارے مارتا ہے-

"نيچے ہر يا دل سے نچڑے ہوئے گھنے رکھ تے جو اس کے پاس آرہے  تھے- وہ اور نيچے ہوا تو رکھوں کے ذخيرے ميں گھري ايک جھيل دکھائي دي پر اس کا پناي لشکتا نہ تھا-"

"قربتِ مرگ ميں محبت" ميں معاشرے کے اہم سماجي مسئلے کي طرف اشارہ ہے اور وہ نوجوان نسل کا زندگي کي مصروفيات ميں گم ہوجانا اور اپنے بزرگوں کو نظر انداز کرنا ہے-

"اس کے بچے اس کي بيٹياں ہميشہ رات کے اس پہر اسے فون کرتي تھيں کہ يہ اقتصادي طور پر انہيں موافق آتا تھا، ہيلو ڈيڈي آپ سو تو نہيں گئے تھے- ميں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہيں کيا- ميں ثانيہ بول رہي

ہوں آواز آ رہي ہے ناں- آريو آل رائٹ ڈيڈي، بلڈ پريشر کي گولي کھالي ہے، سستي نہيں کرنا ڈيڈي آئيي لو يو ٹيک کيئر بائے - - - - - - - -"

بزرگوں کو معاشرے کا ايک مفلوج طبقہ سمجھنا اور ان کو يکسر نظر انداز کردينا اسي پہلو کو اکرام اللہ نے "سائے کي آواز" ميں پيش کيا ہے-

"گيارہ بجے بيٹا اندر سے نکلے گا اور گاڑي سٹارٹ کرکے زن سے کلب برج کھيلنے نکل جائے گا اور شام کو پانچ چھ بجے لوٹے گا، پھر بيوي کو لے کر جائے گا تو دس گيارہ بجے کے قريب واپسي ہوگي- باپ کے جانے کے بعد بڑا پوتا موٹر سائيکل پر دوستوں کوملنے چل پڑے گا چھوٹے پوتے کے ساتھي آجائيں گے اور لان ميں کرکٹ ہوگي- تين چار بجے کوئي نہ کوئي بہو کي ملنے والي آن ٹپکےگي- ايک مجھے نہ کہيں جانا ہے اور نہ کسي کو مجھے ملنے آنا ہے مجھے اب کچھ کرنا ہے اپنے اندر ہي کرنا ہے- باہر کچھ نہيں کرنا- غنيمت ہے کہ اندر بھي آباد ہے-"

انيس ناگي کے موضوعات پاکستان کے سماجي مسائل کا احاطہ کرتے ہيں-  ان کے ناولوں کے کردار معاشرے کے ساتھ مفاہمت نہيں کرسکتے- ان ميں ناول "ديوار کے پيچھے" (1980ء) کا ہيئرو پروفيسر"ميں اور وہ" (1989ء) کا ہيرو "محاصرہ" (1992ء) کا سليم "دارلشکوہ" (1998ء) کا ميجر قربان "قلعہ" (1994ء) کا کيمپ شامل ہيں- "ايک گرم موسم کي کہاني" (1990ء) ميں تاريخ کے ايک اہم واقعہ 1857ء کے غدر کو موضوع بنايا ہے-

تحرير: ڈاکٹر عقيلہ جاويد

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان