• صارفین کی تعداد :
  • 3627
  • 2/13/2012
  • تاريخ :

امام جعفرصادق عليہ السلام کي شخصيت کا مختصر جائزہ

امام جعفرصادق علیہ السلام

اسم گرامي جعفر (عليہ السلام )

والد ماجد اور اجداد محمد الباقر (عليہ السلام ) بن علي زين العابدين (عليہ السلام ) بن امام حسين سيد الشہداء (عليہ السلام )بن امير المومنين علي (عليہ السلام ) بن محسن خاتم النبين ابي طالب عليہ السلام

مشہور القاب صادق - صابر - فاضل - طاہر - مصدق

کنيت ابو اسماعيل ‘ ابو عبداللہ 0اصول کافي ميں آپ کا ذکر ابو عبداللہ ہي سے فرمايا گيا ہے-

مادر گرامي محترمہ معظمہ ام فروہ بنت جناب قاسم بن محمد بن ابي بکر

تاريخ ولادت

17ربيع الاول پر اتفاق کيا گيا ہے مگر سال ولادت ميں مورخين کا اختلاف ہے - امام بخاري اور علامہ حسن الامين کے نزديک سن پيدائش 80ہجري بمطابق 24 مئي 699ء ہے تہذيب الاسماء ميں علامہ نوري نے اور وفيات الاعيان ميں ابن خلکان نے اسي تاريخ کو اختيار کيا ہے - نيز العجالي اور الخشاب کے نزديک بھي يہي زيادہ صحيح ہے - ليکن ثقتہ الاسلام جناب يعقوب کليني اور شيخ مفيد عليما الرحمہ کے مطابق 17 ربيع الاول 83ء بمطابق 26اپريل 703ء زيادہ صحيح ہے -

تاريخ شہادت

148ھ مطابق 765ء ميں کوئي خاص اختلاف نہيں ہے مگر يوم وفات پر اتفاق نہيں ہو سکا ہے بعض نے 15 رجب اور اکثر نے 15 شوال کو تاريخ شہادت قرار ديا ہے -

سبب شہادت عباسي بادشاہ منصور دوانيقي نے عداوت کے باعث انگوروں ميں زہر دے کر شہيد کيا -

مدفن جنت البقيع مدينہ منورہ ميں اپنے والد ماجد حضرت امام باقر عليہ السلام اپنے دادا سيد سجاد امام زين العابدين عليہ السلام ‘ امام حسن مجتبي عليہ السلام اور اپني جدہ طاہرہ سيدہ خاتون جنت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا کے مزارات کے قريب دفن ہوئے مگر عہد سعوديہ ميں يہ تمام روضہ ہائے آل رسول منہدم کر ديئے گئے اور آج يہ قبور حسرت و ياس کي تصاوير بني امت کي غيرت کا منہ ديکھ رہي ہيں -

دھيال و ننھيال يقينا امام جعفر صادق عليہ السلام کے دودھيال بے مثل و بے نظير تھے - خانوادہ رسالت و امامت کا ثاني کون ہو سکتا ہے مگر ننھيال بھي کم نہ تھے مادر گرامي جناب اما فروہ علمي معدن کا درناياب تھيں - آپ کے نانا قاسم اسلام کے عظيم فقيہ تھے اور اس فرزند اسلام جناب محمد بن ابي بکر کے نور چشم تھے جن کو باب مدينتہ العلم علي المرتضي کي آغوش تربيت نصيب ہوئي تھي اور علي ان کو اپنا بيٹا کہتے تھے آپ کے ماموں جناب عبدالرحمن بن قاسم کا علمي مرتبہ بھي بہت بلند تھا اور فقہائے مدينہ ميں انتہائي ممتاز مقام کے حامل تھے - حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام خانوادہ رسالت اور سلسلہ ائمہ اہل بيت رسول ( کے چھٹے امام ہيں - اور وہ سلسلہ امامت حقہ ہے جس کي خليل خدا جناب ابراہيم عليہ السلام نے اپني اولاد کيلئے تمنا و آرزو کي تھي اور پروردگار نے لا ينا عہدي الظالمين کي شرط کے ساتھ يہ خواہش پوري کرکے امامت منصوص من اللہ اور عصمت کي طرف بليغ اشارہ کيا تھا -

عہد امامت

فرزند رسول امام جعفر صادق عليہ السلام وہ شخصيت ہيں جن کو امامت حقہ کے دونوں دشمن خاندانوں سے واسطہ پڑا - يعني بني اميہ اور بني عباس سے سابقہ ہوا - آپ نے اموي شوکت و جبروت اور عباسي شہنشاہيت کا قہرو قبلہ دونوں کو ديکھا - اموي خون آشاميوں کو بھي ملاحظہ فرمايا اور عباسي سفاکيوں کا بھي نظاہرہ کيا آپ نے اموي عہد کي آخري ہچکياں سنيں اور ان کے اقتدار کو دم توڑتے ہوئے ديکھا کہ استبدادي تخت و تاج کسي طرح ٹھوکروں کا کھلونا بن گئے 40ء سے قائم اموي سلطنت کا چراغ آخر کار گل ہوا اور ظالم حکومت اپنے انجام کو پہنچ گئي جابر حکمران اپنے ظلم و جور اور جبرو استبداد ختم کرکے خود تو زميني کيڑے مکوڑوں کي خوراک بن گئے مگر اپني چيرہ دستيوں کے بدلے اپني نسلوں کو گروي رکھ گئے -

کعبة اللہ کي تاراجي ‘ مدينتہ الرسول کي تباہي و بے حرمتي ‘امام حسين مظلوم کا بے خطا قتل ‘ اسلامي آئين کي پامالي اور شرعي قوانين کي توہين وغيرہ ايسي شنيع باتيں تھيں جو ملت مسلمہ کے ضمير کو لخطہ لخطہ جھنجھوڑ رہي تھيں - جلدي يا دير سے بہر حال امت کي غير بيدار ہوئي - مسلمانوں پر اثر ہوا اور بھر پور ہوا کہ مردہ بولے تو کفن پھاڑے - اب امويوں کيلئے کوئي جائے پناہ نہ تھي - سر چھپانے کا ٹھکانا ملنا تو بڑي بات ہے لوگوں نے پرانے مردے اکھاڑنے شروع کئے اور قبروں تک کو کھدوا ديا گيا -

بني عباس جنہوں نے موقع کي نزاکت سے بھر پور فائدہ اٹھايا اور آل رسول کے نام اور ثارات الحسين کے نعرہ پر انقلاب کو ہوا دي اپنے کرتوت ميں بني اميہ سے بھي بازي لے گئے اور اموي و عباسي دونوں کے انداز حکمراني ميں کوئي فرق باقي نہ رہا - جس طرح بني اميہ کے زمانے ميں اہل بيت رسول پر ظلم وتشدد ہوتا رہا اسي طرح بنو عباس کے عہد کي سفاکياں جاري رہيں - ائمہ اہل بيت پہلے بھي نشانہ ستم بنے رہے اور اب تو جورو جفا ميں اور اضافہ ہو گيا دونوں ادوار ميں قانون کي بالا دستي نام کي کوئي چيز نہ تھي -

حاکم کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات گويا حرف آخر ہوتے تھے - مفتيان دين اور قاضيان شرع متين اپني عزت و ناموس اور جانوں کا تحفظ اس بات ميں محسوس کرتے تھے کہ سلطان وقت کے اشارہ ابرو کو سمجھيں اور اس پر بلا حيل و حجت عمل کريں - جابر بادشاہ کے احساسات اور جذبات کے موافق فتوے جاري کريں - ورنہ کوڑے کھانے کيلئے تيار رہيں - کسي صاحب دستار عالم فاضل کے سرکو پھوڑ دينا اور معزز شہري کو بلا قصور قيد و بند کي صعبت ميں مبتلا کر دينا تو معمولي واقعات تھے -

کيا ايسے فتنہ انگيز دور ميں رسول صادق صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي مسند شريفہ پر بيٹھ کر اسلام کي صحيح ترويج اور دين کے محکم فيصلوں کا صادر کرنا آسان کام تھا ؟يہي وجہ تھي کہ ائمہ اہل بيت کو کام کرنے کا موقع ہاتھ نہ لگ سکا کيونکہ ان کي تو خصوصي طور سے کڑي نگراني کي جاتي تھي البتہ صرف امام جعفر صادق عليہ السلام کو غنيمت کے طور پر تھوڑا سا وقت مل گيا وہ بھي اس لئے کہ امويوں کو اپنے اقتدار کے جانے کي پڑ گئي اور عباسيوں کو اپني کرسي بچانے کي - جب دونوں کو اپني پڑي تو امام برحق کو موقع مل گيا کہ رسول اکرم کے مشن "

کتاب و حکمت کي تعليم کو فروغ اور وسعت ديں -

يون تو ہر امام نے اپنے وقت ميں اپنے فرائض امامت کما حقہ انجام ديئے - بالخصوص واقعہ کربلا سے امير المومنين امام علي عليہ السلام اور جوانان جنت کے دونوں سردار حضرات حسنين شريفين عليما السلام کے کار ہائے نماياں اور مسند علم و فقہ پر متمکن رشد و ہدايت کے فيوض سے کون واقف نہيں ہے ان کا تو ذکر ہي بلند ہے ان سے وابستہ ہو جانے والے غلام و کنيزيں علمي مراتب ميں اپني مثال نہيں رکھتي ہيں - کربلا کے مصائب اور خونچگاں حادثات کو برداشت کرنے کے بعد امام زين العابدين عليہ السلام کا دين اسلام کي خدمت پر کمر بستہ ہو جانا بھي انوکھي نظير ہے صحفيہ سجاديہ جسے زبور آل محمد کہا گيا ہے حضرت سجاد کے علمي آثار کا ايک ممتاز نمونہ ہے -

امام محمد باقر عليہ السلام وہ کوہ علم ہيں جس کي بلنديوں تک انساني نگاہيں پہنچنے سے قاصر ہيں - وہ ايسي ذي و قار شخصيت ہيں جن کے در پر بڑے بڑے عالم اور نابغہ روزگار جبہ رسائي کئے بغير اپنے آپ کو نا مکمل اور ادھورا تصور کرتے تھے آپ کا لقب " باقر " اسي لئے ہے آپ بات سے بات پيدا کرتے اور علم کو شگافتہ کرکے اس کي کنہ اور حقيقت سے دنيا کو روشناس کراتے اور ايسے مسائل بيان فرماتے جو وارث قران الحکيم ہي بيان کر سکتا ہے آپ کا شريعت کدہ علم کا مرکز اور حکمت کا عظيم منبع اور سر چشمہ تھا -

جس سے ايک عرصہ تک دنيا فيض حاصل کرتي رہي اور امام جعفر صادق نے بھي اپنے والد معظم کے مکتب ميں حاضر ي دي جن کو دوسرے اماموں کے مقابلے ميں نشر علوم کا زيادہ موافق وقت مل گيا -

جسٹس امير علي اپني تاريخ عرب ميں لکھتے ہيں کہ

" اس ميں کوئي اختلاف نہيں ہے کہ اس دور ميں علم کا انتشار (پھيلاؤ) اس حد تک ہوا کہ انساني فکر کا جمود ختم ہو گيا اور فلسفي مسائل ہر محفل ميں زير بحث آنے لگے - ليکن يہ واضح کر دينا ضرور ي ہے کہ اس پوري علمي تحريک کے قائد اکبر علي ابن ابي طالب کے فرزند امام صادق تھے - جن کي فکر وسيع ‘ نظر عميق اور جنہيں ہر علم ميں کامل دستگاہ حاصل تھي حقيقت تو يہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکر کے موسس اور باني کي حيثيت رکھتے ہيں آپ کي مجلس بحث و درس ميں صرف وہي حضرات نہ آتے تھے جو بعد ميں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے کيلئے حاضر ہوتے تھے "

رفيقہ حيات امام جعفر صادق کي صرف ايک زوجہ تھيں جن کا اسم گرامي " فاطمہ " تھا -

ايک روايت ہے کہ آپ (فاطمہ ) حضرت حسين بن علي ابن امام حسين عليہ السلام کي صاحبزادي تھيں اور شيخ مفيد عليہ الرحمہ کے نزديک يہي صحيح ہے - بعض کا خيال ہے کہ فاطمہ بنت حسين الاثرم بن حسن تھيں -

اولاد آپ کے سب سے بڑے فرزند حضرت اسماعيل تھے - جن کا آپ کي زندگي ميں ہي انتقال ہو گيا تھا دوسرے عبداللہ اور بيٹي ام فروہ تيسرے فرزند امام موسي کاظم چوتھے اسحاق پانچويں محمد 3,4,5 کي والدہ حميدہ خاتون تھيں جو بربريہ تھيں ) ان کے علاوہ عباس علي اسماء فاطمہ مختلف البطن تھيں گويا سات بيٹيا ور تين بيٹياں -

مشہور اصحاب اور شاگر د چار ہزار سے زيادہ عظيم ترين افراد اور ہستياں آپ کے حلقہ علم و ارادت سے منسلک تھيں ان کي فہرست باقاعدہ موجود ہے اس وقت چند مشہور شخصيتوں کا تزکرہ اور اسماء درج زيل ہے جو علم و فضل ميں ممتاز تھے -

ابن تغلب اسحاق ابن عمار ابو القاسم بريد بن معاويہ عجلي ثابت بن دينار ابو حمزہ ثمالي

مالک ابن انس سفيان ثوري 9; سفيان بن عينيہ فضل بن عياض شعبہ بن حجاج حاتم بن اسماعيل

حفص بن غياث 9; 9; ا براہيم بن محمد ابو المنذر زہير بن محمد حماد بن زياد

زرارہ بن اعين شيباني ابو محمد صفوان بن مہران ہشام بن الحکم معلي بن خنيس مفضل بن عمرو

بکر الشيبقي جابر بن حيان امام اعظم ابو حنيفہ وغير ہم

بادشاہان وقت اموي عبدالملک ‘ وليد بن عبدالملک ‘ سليمان ابن عبدالملک ‘ عمر ابن عبدالعزيز ‘يزيد بن عبدالملک ‘ ہشام بن عبدالملک ‘ وليد بن عبدالملک ثاني ‘يزيد ناقص ‘ ابراہيم بن وليد ‘ مروان بن محمد ‘ عباسي ابوالعباس السفاح ‘ ابو جعفر منصور

شعراء السيد الحميري ‘الکميت ‘ابوہريرہ الابار‘ اشجع السلمي البعدي

دربان محمد بن سنان ‘ مفضل بن عمرو

تصانيف و تاليفات

رسالہ عبداللہ ابن النجاشي ‘ رسالہ مروي عن الاعمش ‘ توحيد مفضل ‘ کتاب ‘ کتاب مصباح ‘ الشريعت مفتاح الحقيقت ‘ رسالہ الي اصحاب ‘ رسالہ الي اصحاب الرائے والقياس ‘رسالہ بيان غنائم وجوب الخمس ‘ وصيت العبد اللہ ابن جندب ‘ وصيت لابي جعفر بن النعمان الاحول ‘ نثر الدررر ‘ کلام دربيان محبت اہل بيت ‘ توحيد ‘ ايمان ‘ اسلام ‘ کفر و فسق ‘ وجوہ معاليش العباد و وجوہ اخراج الاموال ‘ رسالہ في احتجاج علي الصوفيہ ‘ کلام در خلق و ترکيب انسان ‘ مختلف اقوال حکمت و آداب ‘ نسخہ (اس کاذکر نجاشي نے اپني کتاب الرجال ميں کيا ہے )‘نسخہ (جس کو عبداللہ ابن ابي اوليس بن مالک بن ابي عامر الاصبحي نے بيان کيا ہے ) نسخہ (جو سفيان بن عينيہ سے مروي ہے ) نسخہ (جو ابراہيم بن رجاء الشيباني سے مروي ہے ) کتاب (جو جعفر بن بشير البجلي کے پاس تھي ) کتاب رسائل جو آپ کے شاگرد جابر بن حيان الکوفي سے مروي ہے ‘ تقسم الروياء

(مزيد تفصيل کيلئے اعيان الشيعہ کا مطالعہ کيا جائے )

اسلام محوہونے لگا جب دروغ سے

جب گھر کو آگ لگ گئي گھرکے چراغ سے

کب يہ گوارہ کرتا محمد کا ورثہ دار

اٹھا کہ تھا وہ ديں کي حفاظت کا ذمہ دار

کرنے لگا جہاد قلم سے زبان سے

بد اصل فلسفے کے پرخچے اڑا ديئے

جس طرح کربلا ميں بچا دين مصطفي

آل نبي کي سعي سے اسلام پھر بچا

جب وار علم جعفر صادق کا چلا گيا

مردود ناصبي کا جنازہ نکل گيا

عزم جونپوري

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان