• صارفین کی تعداد :
  • 592
  • 5/16/2012
  • تاريخ :

منٹو: نصف صدي کا قصہ  

منٹو

  لاہور کے ہم پانچ نوجوانوں کے ليے 1967 کا سال دو وجوہات کي بنا پر بڑا اہم تھا- ايک تو اس برس سوويت انقلاب کي گولڈن جوبلي منائي جا رہي تھي کيونکہ انقلابِ روس کو پچاس سال پورے ہو چکے تھے اور دوسرا بڑا واقعہ يہ تھا کہ لاہور ميں منٹو ميموريل سوسائٹي کا قيام عمل ميں آيا تھا-

يہ سوسائٹي چونکہ ہم دوستوں کے ايماء پر بني تھي اس لئے صدر، سيکريٹري اور خزانچي وغيرہ کے عہدے بھي خود ہي آپس ميں بانٹ ليے تھے-

البتہ پيڈ چھپوانے کے بعد سب سے اہم سوال يہ سامنے آيا کہ منٹو ميموريل سوسائٹي کرے گي کيا؟

چنانچہ اغراض و مقاصد کي ايک فہرست تيار کي گئي اور انھيں ايک قرارداد کي شکل ميں لکھ کر تمام معروف اديبوں اور شاعروں سے اُس پر دستخط لينے شروع کر دئيے-

احمد نديم قاسمي ، صفدر مير اور ايرک سپرين نے ہماري بہت حوصلہ افزائي کي اور ہر طرح کے تعاون کا يقين دلايا- ہماري سوسائٹي کا اولين مقصد يہ قرار پايا کہ منٹو کي قبر دريافت کي جائے- اصل ميں ہم وہ کتبہ پڑھنے کے لئے بے چين تھے جس پر درج تھا کہ منوں مٹي تلے پڑا منٹو اب بھي سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے يا خدا؟

مياني صاحب کے قبرستان پہنچ کر ہم نے وہاں کے دفتر سے رابطہ کيا تو پتا چلا کہ وہاں کوئي بھي منٹو کے نام سے واقف نہيں ہے اور اُن کے رجسٹروں ميں 1960 سے پہلے کا کوئي ريکارڈ نہيں ہے چنانچہ ہم نے ہال روڈ اور بيڈن روڈ کے سنگم پر واقع منٹو صاحب کے فليٹ کا رخ کيا-

دروازے پر دستک دي تو دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا ’معلوم نہيں کوئي گھاس ڈالے گا يا نہيں ‘- ليکن صفيہ منٹو جو کہ انتہائي سادہ اور بھلے مانس خاتون تھيں بڑي شفقت سے پيش آئيں- ہم نے صفيہ منٹو کے نام سے جو ايک آدھ تحرير پڑھ رکھي تھي اُس کي روشني ميں خاتون کو جانچا تو مايوسي ہوئي کيونکہ ہم ايک تيز طرار انٹلکچول قسم کي عورت کا تصور ليے ہوئے گئے تھے-

باتوں باتوں ميں جب اُن کي تحرير کا ذکر چلا تو انھوں نے صاف صاف بتا ديا کہ وہ رائٹر نہيں تھيں اور انھوں نے کبھي کچھ نہيں لکھا- البتہ ضرورت کے تحت ايک دو تحريروں پر اُن کا نام ضرور چھاپا گيا تھا-

بيگم صفيہ منٹو کو ہم نے اس امر پر تيار کر ليا کہ وہ يومِ منٹو کي تقريب ميں مہمانِ خصوصي کے طور پر شرکت کريں-

جوں جوں منٹو کا يومِ پيدائش قريب آرہا تھا ہمارا جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا- ہم نے منٹو کے سبھي ہم عصر اديبوں سے ملاقات کر کے منٹو پر مضامين لکھوائے، اور مال روڈ پر ايک سرکاري آڈيٹوريم بھي ہميں جلسہ کرنے کے لئے مل گيا-

يومِ منٹو کا پروگرام پاک ٹي ہاؤس ميں بيٹھ کر تيار ہوا جس کے مطابق ہميں اُس روز صبح سويرے منٹو کي قبر پر جانا تھا - وہاں پھول چڑھانے اور فاتحہ پڑھنے کے بعد واپس ٹي ہاؤس آ کر شام کے جلسے کي تياري کرني تھي-

چونکہ سوسائٹي کے اکثر ارکان سيکولر خيالات کے حامل تھےاس لئے قبر پر ادا کي جانے والي رسومات کي مخالفت شروع ہو گئي- ايک ستم ظريف نے تو يہاں تک کہ ديا کہ عطرِ گلاب کا چھڑکاؤ بے کار ہے، اُس قبر پر ٹھّرے کا چھڑکاؤ ہونا چاہيے- اور پھر اُس نے ديسي شراب کي بوتل عطيے کے طور پر دينے کي پيشکش بھي کي- شراب پاشي کي تجويز پر سنجيدگي سے غور ہو رہا تھا کہ ٹي ہاؤس کے ازلي ابدي باسي زاہد ڈار نے مداخلت کي اور شديد احتجاج کرتے ہوئے کہا ’يوں شراب کو ضائع ہوتے ديکھ کر اسکي روح بے چين ہو جائے گي، بہتر ہے وہ بوتل کسي ’ضرورت مند‘ کو دے دو-‘

زاہد ڈار جيسے خاموش طبع آدمي کے منہ سے اتنا لمبا جملہ سن کر منٹو ميموريل سوسائٹي کے ارکان ششدر رہ گئے اور انھوں نے قبر پر شراب چھڑکنے کا منصوبہ ترک کر ديا-

ابھي تياري يہيں تک پہنچي تھي کہ حبيب جالب ٹي ہاؤس ميں داخل ہوئے- وہ حسبِ معمول حکومت کے زيرِ عتاب تھے- اور جيل ميں آنا جانا لگا رہتا تھا- جالب اس بات پر ناراض تھے کہ ہم نے شرکائے جلسہ ميں ان کا نام نہيں لکھا- ’بھلا منٹو کا جلسہ ہو اور ميں کچھ نہ بولوں- اس کي اصل دوستي تو مجھ سے تھي-‘

حبيب جالب نے ہم سب کو معني خيز نظروں سے ديکھا- ہماري تحقيق کے مطابق منٹو اور جالب کا آپس ميں کوئي تعلق نہ بنتا تھا ليکن وہ بضد تھے تو ہم نے اُن کا نام بھي جلسے کے اُس اشتہار ميں شامل کر ليا جو ٹي ہاؤس کے دروازے پر چسپاں تھا-

آخر اٹھارہ جنوري انيس سو اڑسٹھ کا وہ دن بھي آن پہنچا جسے ہم سب کي زندگي ميں ايک يادگار دن بننا تھا منٹو کے کچھ واقف کاروں نے مشورہ ديا کہ قبر ڈھونڈنے کے لئے کوئي مستند راہنما ساتھ لے جاؤ ورنہ دوسري بار بھي ناکامي ہو گي- چنانچہ ہم کھوج لگا کر منٹو کے ايک ايسے مدّاح کا پتہ معلوم کرنے ميں کامياب ہو گئے جو باقاعدگي سے منٹو کي قبر پر جايا کرتا تھا- ہميں بتايا گيا کہ يہ شخص ايک حجام ہے اور ايم اے او کالج کے سامنے اس کي دکان ہے وہاں پہنچے تو حجام کي بجائے چائے کا ايک کھوکھا نظر آيا- وہ شخص اپنا پيشہ تبديل کر چکا تھا-

بہر حال بڑے خلوص سے ملا- کہنے لگا ’ منٹو صاحب بہت مشہور شاعر تھے جناب‘ بڑي مشہور ہستي تھے - - - ميرے بھتيجے کو گورنمٹ کالج ميں داخلہ نہيں مل رہا تھا بس منٹو صاحب کے ايک اشارے پر مل گيا - - - بہت بڑے شاعر تھے-‘

پھر اس حجام / چائے فروش کے بتائے ہوئے پتے پر ہم راونہ ہو ئے اور سيدھے منٹو کي قبر پر جا کر دم ليا-

ہمارا خيال تھا کہ بارہ برس سے وہ قبر ويران پڑي ہے جھاڑ جھنکار کے سوا وہاں کچھ نہيں ملے گا- ليکن ہم نے ديکھا کہ قبر کي صفائي ابھي ابھي کي گئي ہے اور کوئي مدّاح ہم سے پہلے آ کر وہاں تازہ تازہ پھول چڑھا گيا ہے-

ايک جھٹکا البتہ ہميں ضرور لگا: قبر پر لگے کتبے کي عبارت وہ نہيں تھي جسکي ہم توقع کر رہے تھے- يہ ايک ترميم شدہ کتبہ تھا جس ميں غالب کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے منٹو اپنے اس يقين کا اظہار کر رہا تھا کہ وہ لوحِ جہاں پر حرفِ مکرر نہيں ہے-

بہر حال قبر پر فاتحہ خواني اور تصوير کھينچنے کا مرحلہ تو بخوبي طے ہو گيا ليکن اُسي شام منٹو کي ياد ميں ہونے والے تاريخي جلسے نے ہميں اتنا پريشان کيا کہ ہماري راتوں کي نيند حرام ہو گئي- اور يہ سب کيا دھرا تھا حبيب جالب کا-

تحریر: عارف وقار

پیشکش: شعبہ تحربر و پیشکش تبیان