• صارفین کی تعداد :
  • 1789
  • 3/5/2012
  • تاريخ :

اسلام اور مغرب  کي نظر ميں انساني حقوق  ( حصّہ دوّم )

سوالیہ نشان

سترہويں صدي سے پہلے اہل مغرب ميں حقوق انساني کا کوئي تصور موجود نہ تھا- سترہويں صدي کے بعد ايک مدت تک مغربي فلسفيوں نےضرور اس خيال کو پيش کيا مگر عملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہويں صدي کے آخر ميں امريکہ اور فرانس کے دستوروں ميں ملتا ہے- آج دنيا کے اکثر ملکوں کے دساتير ميں انساني حقوق کي آئيني گارنٹي دي گئي ہے-

انساني حقوق کے بارے ميں اسلام کا تصور بنيادي طور پر بني نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبني ہے- قرآن حکيم کي رو سے اï·² رب العزت نے نوعِ انساني کو ديگر تمام مخلوقات پر فضيلت و تکريم عطا کي ہے- قرآن حکيم ميں ارشاد باري تعاليٰ ہے :

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً.

’’اور بيشک ہم نے بني آدم کو عزت بخشي اور ہم نے ان کو خشکي اور تري (يعني شہروں اور صحراğ اور سمندروں اور درياğ) ميں (مختلف سواريوں پر) سوار کيا اور ہم نے انہيں پاکيزہ چيزوں سے رزق عطا کيا اور ہم نے انہيں اکثر مخلوقات پر جنہيں ہم نے پيدا کيا ہے فضيلت دے کر برتر بنا ديا ‘‘

بني اسرئيل، 17 : 70

2- حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع ميں ارشاد فرمايا :

يا ايها الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد ولا فضل لعربي علي عجمي ولا لعجمي علي عربي ولا لأحمر علي أسود ولا لأسود علي احمر الا بالتقويٰ.

’’اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارا رب ايک ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم عليہ السلام) ايک ہے- کسي عربي کو غير عرب پر اور کسي غير عرب کو عجمي پر کوئي فضيلت نہيں اور کسي سفيد فام کو سياہ فام پر اور نہ سياہ فام کو سفيد فام پر فضيلت حاصل ہے- سوائے تقويٰ کے-‘‘

طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 86، رقم : 4749

اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتيازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبني تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ ديا اور تاريخ ميں پہلي مرتبہ تمام انسانوں کو ايک دوسرے کے ہم پلہ قرار ديا خواہ وہ امير ہوں يا غريب، سفيد ہوں يا سياہ، مشرق ميں ہوں يا مغرب ميں، مرد ہو يا عورت اور چاہے وہ کسي بھي لساني يا جغرافيائي علاقے سے تعلق رکھتے ہوں-

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان