• صارفین کی تعداد :
  • 1730
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

امام حسين (ع) کي فکرمندي کيا تھي؟ - 1

روزِ عاشوره

امام حسين عليہ السلام ہميشہ ايسے موقع کي تلاش ميں تھے کہ بنواميہ کي غاصبانہ اور ظالمانہ حکمراني کے خلاف قيام کرکے ظلم اور ظالم کي بساط لپيٹ ليں؛ تا ہم ايسا موقع امام حسن مجتبي عليہ السلام کي شہادت تک حتي شہادت امام مجتبي (ع) کے کئي سال بعد تک بھي ہاتھ نہيں آيا؛ ليکن زمانہ جتني کہ معاويہ کي موت قريب آرہي تھي، امام حسن اور امام حسين عليہما السلام نے معاويہ کے خلاف اپني تشہيري اور تبليغاتي جنگ کو شدت بخشي تا آنکہ معاويہ کي موت سے ايک سال قبل مِني کے مقام پر 200 صحابيوں اور عالم اسلام کے 500 مفکرين کے اجتماع سے خطاب کيا اور اہل بيت (ع) کے حقوق گنوائے اور انہيں ان حقوق کے احياء اور ظلم کے خلاف جدوجہد کي دعوت دي- امام عليہ السلام نے ان اقدامات کے ذريعے مرگ معاويہ کے بعد بنو اميہ کي حکومت کے خلاف قيام کے لئے مقدمات فراہم کررہے تھے اور مناسب موقع کي تلاش ميں تھے-

معاويہ کي موت کے ايک سال بعد امام حسين عليہ السلام سفر حج پر نکلے اور عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر بھي آپ (ع) کے ہمراہ تھے- امام (ع) نے بنوہاشم کے تمام مردوں اور خواتين، قرابتداروں اور پيروکاروں کو اکٹھا کيا اور انصار ميں سے بھي ان لوگوں کو اکٹھا کيا جنہيں آپ (ع) جانتے تھے يا ان کے خاندان والوں کو جانتے تھے؛ اور کئي قاصد روانہ کرکے اس سال حج کے لئے آنے والے اور صلاح و عبادت کے حوالے سے معروف اصحاب نبي (ص) کو بھي بلوايا تا کہ سب کو اس اجتماع ميں حاضر کرسکيں-

مِني کے مقام پر امام حسين عليہ السلام کے خيموں ميں سات سو اصحاب و عالم اسلام کے ممتاز مفکرين اور علماء اکٹھے ہوئے- اکثر افراد تابعي تھے اور 200 صحابہ رسول اللہ (ص) تھے، نيز عام لوگوں کي بھي خاصي تعداد حاضر ہوئي تھي-

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 25