• صارفین کی تعداد :
  • 1710
  • 3/24/2012
  • تاريخ :

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا24

امام علی

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا 20

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا 21

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا 22

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا 23

ابوبصير روايت کرتے ہيں کہ امام ابوعبداللہ جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا: بے شک خدا کے پاس دو علوم ہيں ايک علم مکنون و مخزون اور خزانۂ الہي ميں چھپا ہوا علم ہے جس کو اللہ کے سوا کوئي نہيں جانتا اور بداء کا سرچشمہ يہي علم ہے اور ايک علم وہ ہے جو اللہ نے ملائکہ، رسل اور انبياء کو عطا فرمايا ہے اور ہم اس علم کو جانتے ہيں-

معلي بن محمد روايت کرتے ہيں کہ امام رضا عليہ السلام نے فرمايا: "فلله تبارك وتعالى البداء فيما علم متى شاء، وفيما أراد لتقدير الأشياء، فإذا وقع القضاء بالإمضاء فلا بداء"- (27) خداوند متعال اپنے علم ميں جب بھي چاہے بداء فرماتا ہے اور اشياء کي تقدير کا تعين فرماتا ہے اور جب قضاء امضاء کے مرحلے تک پہنچتي ہے (اور قضاء حتمي اور قضاء مبرم ہوجاتي ہے) تو اس ميں بداء نہيں ہے-

قضاء کي دوسري قسم: وہ قضائے محتوم جس کي حتميت سے اللہ تعالي انبياء اور ملائکہ اور اوصياء کو ان کے وقوع کي حتميت سے آگاہ فرماتا ہے- اس قسم کي قضاء ميں بھي بداء کا امکان نہيں ہے؛ کيونکہ خداوند متعال نے اس کے وقوع کا علم انبياء، ملائکہ اور اوصياء کو عطا کيا ہے اور خدا خود ہي اپنے انبياء، ملائکہ اور اوصياء کو خود ہي نہيں جھٹلايا کرتا- اس قسم کي قضاء کا اول الذکر قضآء کے ساتھ فرق يہ ہے کہ اول الذکر قضاء خدا کي ذات کے لئے محدود ہے اور اس ميں کسي اور کا کوئي عمل دخل نہيں ہے ليکن دوسري قسم کي قضاء کا علم وہ جس کو بھي چاہے عطا فرماتا ہے؛ تا ہم يہ دونوں قسميں حتمي اور مبرم ہيں اور ان دو قسموں ميں بداء کا کوئي امکان نہيں ہے- بعض روايات دوسري قسم کي قضاء پر دلالت کرتي ہيں: ...

........

مآخذ

27- الكافي، ج 1، ص: 149-