• صارفین کی تعداد :
  • 2574
  • 7/4/2012
  • تاريخ :

ابو طالب اور رؤيائے صادقہ

بسم الله الرحمن الرحیم

*. رؤيائے صادقہ (سچا سپنا):

حضرت ابوطالب نے «حجر اسماعيل» ميں ايک سچا خواب ديکھا کہ آسمان سے ان کي طرف ايک دروازہ کھل گيا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشني نيچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہي ہے.

بس عجب در خواب روشن مي شود

دل درون خواب روزن مي شود

آنچنان كہ يوسف صديق را

خواب بنمودي و گشتش متكا

پس عجب ہے کہ خواب ميں ہي روشن ہوتا ہے

خواب کے اندر دل دريچہ بن جاتا ہے

جيسا کہ يوسف صديق کو خواب دکھائي ديا

اور يہي خواب ان کے لئے سہارا بن گيا

ابوطالب عليہ السلام اٹھے اور خواب تعبير کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے. اور اپنے خواب کي تفصيل بيان کي.

مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ايک نہايت شرافتمند فرزند عطا ہوگا. ثقة الاسلام محمد بن يعقوب کليني رحمة اللہ عليہ نے الکافي ميں روايت کي ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا نے حضرت ابوطالب عليہ السلام کو نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي ولادت کي خوشخبري سنائي؛ حضرت ابوطالب (ع) نے بھي ان کو علي عليہ السلام کي ولادت کي خوشخبري سنائي.

*. رسول خدا(ص) کي سرپرستي:

حضرت عبدالمطلب عليہ السلام کے بيٹوں ميں حضرت ابوطالب (ع) برتر اخلاقيات کے مالک تھے؛ ان کي روش دوسرے بھائيوں کي نسبت زيادہ شائستہ تھي؛ رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ شديد محبت کرتے تھے اور آپ (ص) پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہ (ص) کے لئے نہايت عميق عقيدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول (ص) کا سرپرست مقرر کيا.

*. رسول خدا(ص) کي تربيت اور نگہداشت:

حضرت ابوطالب عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شديد محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازيں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہيں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل ميں رسالت الہيہ کے حامل ٹہريں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کي پرورش و تربيت اور حفاظت کے سلسلے ميں ايک لمحہ بھي ضائع نہيں کيا اور اس راستے ميں انہوں نے قرباني اور ايثار کي روشن مثاليں قائم کيں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں ميں بھي آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا.

*. شريک حيات کو ہدايت:

سرپرستي کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپني اہليہ کو ہدايت کرتے ہوئے فرمايا: «يہ ميرے بھائي کے فرزند ہيں جو ميرے نزديک ميري جان و مال سے زيادہ عزيز ہيں؛ خيال رکھنا! مبادا کوئي ان کو کسي چيز سے منع کرے جس کي يہ خواہش کريں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا بھي ايسي ہي تھيں اور ان کو پالتي رہيں اور ان کي ہر خواہش پوري کرتي رہيں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھيں.

*. مشرکين کے مد مقابل آہني ديوار:

مورخين نے عبداللہ ابن عباس رضي اللہ عنہ سے نقل کيا ہے کہ: ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بيٹوں پر بھي اتني مہرباني روا نہيں رکھتے تھے جتني کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سويا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکين نے ابوطالب عليہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہي پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو آزار و اذيت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کيا جو حيات ابوطالب (ع) ميں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھي اس امر کي طرف بار بار اشارہ فرمايا ہے.

*. رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا:

ايک دفعہ حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مين نماز ادا کررہے تھے کہ قريشي مشرکين نے اونٹ کي اوجڑي آپ (ص) کے جسم مبارک پر پھينک دي اور آپ (ص) کے کرتے کو آلودہ کيا. رسول اللہ (ص) حضرت ابوطالب(ع) کے پاس آئے اورفرمايا: چچاجان! آپ اپنے خاندان ميں ميرے رتبے کے بارے ميں کيا رائے رکھتے ہيں؟ ابوطالب نے کہا: پيارے بھتيجے ہؤا کيا ہے؟

رسول اکرم (ص) نے ماجرا کہہ سنايا. ابوطالب (ع) نے فوري طور پر بھائي حمزہ کو بلايا اور شمشير حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ايک اوجڑي اٹھالاؤ اور يوں دونوں بھائي قوم قريش کي طرف روانہ ہوئے جبکہ نبي اکرم (ص) بھي ان کے ہمراہ تھے. کعبہ کے ارد گرد بيٹھے ہوئے قريش کے سرداروں کے پاس پہنچے. جب انہوں نے ہاشمي بھائيوں اور رسول اللہ (ص) کو اس حالت ميں ديکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے. مؤمن قريش نے بھائي حمزہ کو ہدايت کي کہ اوجڑي کو قريشيوں کي داڑھيوں اور مونچھوں پر مل ليں. حمزہ نے ايسا ہي کيا اور آخري سردار تک کے ساتھ ہدايت کے مطابق سلوک کيا. اس کے بعد ابوطالب عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پيارے بھتيجے يہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درميان-

يوں قريشي مشرکين کو اپنے کئے کي سزا ملي اور قريش کے سرغنوں نے ايک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہيں رسول اللہ (ص) کو حصول ہدف سے روک لينا، ممکن نہيں ہے.

*. بيٹے کو ہدايت:

جب غار حرا ميں خدا کا کلام آپ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علي عليہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصي و جانشين اور بھائي کو دعوت دي اور علي عليہ السلام نے لبيک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کي امامت ميں نماز ادا کي اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنايا اور کہا «ميں رسول اللہ (ص) پر ايمان لايا ہوں تو مؤمن قريش نے ہدايت کي: «بيٹا! وہ تم کو خير و نيکي کے سوا کسي چيز کي طرف بھي نھيں بلاتے اور تم ہر حال ميں آپ (ص) کے ساتھ رہو».

تدوين و تکميل و ترجمه: ف.ح.مهدوي ( ابنا ڈاٹ آئي ار )

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

بلال اور ولايت کا تحفظ