• صارفین کی تعداد :
  • 3851
  • 10/16/2012
  • تاريخ :

امام محمد تقي (ع) جو چھوٹي عمر ہونے کے باوجود امامت کے منصب پر فائز تھے

جواد الائمہ

امام محمد تقي (ع) جو چھوٹي عمر ہونے کے باوجود امامت کے منصب پر فائز تھے اور قيادت کي ذمہ دارياں ادا کر رہے تھے نظام حاکم کيلئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا- مامون عباسي اہل تشيع کي جانب سے بغاوت سے سخت خوفزدہ تھا لہذا انہيں اپنے ساتھ ملانے کيلئے مکاري اور فريبکاري سے کام ليتا تھا- اس مقصد کيلئے اس نے امام علي رضا  (ع) کو عمر ميں خود سے کہيں زيادہ بڑا ہونے کے باوجود اپنا وليعہد بنايا اور انکے نام کا سکہ جاري کيا اور اپني بيٹي سے انکي شادي کروائي- مامون نے امام محمد تقي  (ع) سے بھي يہ رويہ اختيار کيا اور 211 ھجري ميں انہيں مدينہ سے بغداد بلوا ليا تکہ انکي سرگرميوں پر کڑي نظر رکھ سکے-

مامون عباسي چاہتا تھا کہ دھمکيوں اور لالچ جيسے سياسي ہتھکنڈوں کے ذريعے امام جواد  (ع) کو اپنا حامي بنائے- اسکے علاوہ وہ يہ بھي چاہتا تھا کہ اہل تشيع کو خود سے بدبين نہ ہونے دے اور امام علي رضا  (ع) کو شہيد کرنے کا الزم بھي اپنے دامن سے دھو سکے-

امام محمد تقي  (ع) اسکي توقعات کے برعکس اپني تمام سرگرمياں انتہائي ہوشياري اور دقيق انداز ميں انجام ديتے تھے- وہ حج کے بہانے بغداد سے خارج ہو کر مکہ آ جاتے تھے اور واپسي پر کچھ عرصہ کيلئے مدينہ ميں رہ جاتے تھے تاکہ مامون کي نظروں سے دور اپني ذمہ دارياں انجام دي سکيں-

مامون عباسي کے بعد اسکا بھائي معتصم برسراقتدار آيا- اس نے مدينہ کے والي عبدالملک ابن زياد کو لکھا کہ امام محمد تقي ع اور انکي اہليہ ام الفضل کو بغداد بھجوا دے- معتصم عباسي کے اقدامات کے باوجود امام محمد تقي  (ع) کي محبوبيت ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گيا- حکومت کيلئے جو چيز سب سے زيادہ ناگوار تھي وہ يہ کہ امام جواد  (ع) چھوٹي عمر کے باوجود سب کي توجہ کے مرکز بنتے جا رہے تھے اور دوست اور دشمن ان کے علم اور فضيلت کے قائل ہو رہے تھے- جب امام جواد  (ع) بغداد کي گليوں ميں جاتے تھے تو سب لوگ آپکي زيارت کيلئے چھتوں اور اونچي جگہوں پر جمع ہو جاتے-

اسي طرح بني عباس کے حکمرانوں کي سازشوں کے باوجود امام محمد تقي  (ع) کے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گيا- معتصم انتہائي پريشان تھا کيونکہ وہ ديکھ رہا تھا کہ امام جواد  (ع) انتہائي عقلمندي سے اسکے تمام منصوبوں پر پاني پھير رہے ہيں- سيستان کا رہنے والا بني حنيفہ قبيلے کا ايک شخص کہتا ہے: ايک بار امام جواد  (ع) کے ساتھ حج پر گيا ہوا تھا- ايک دن دسترخوان پر بيٹھ کر کھانا کھا رہے تھے، معتصم کے دربار کے کچھ افراد بھي موجود تھے- ميں نے امام جواد (ع) سے کہا کہ ہمارا حکمران اہلبيت ع سے محبت رکھنے والا شخص ہے، اس نے مجھ پر کچھ ٹيکس لگائے ہيں، آپ مجھے اسکے نام ايک خط لکھ ديں تاکہ ميرے ساتھ اچھا رويہ اختيار کرے- امام جواد  (ع) نے لکھا: بسم اللہ الرحمان الرحيم- اس خط کا حامل شخص تمہارے بارے ميں اچھي رائے رکھتا ہے- تمہارے لئے فائدہ مند کام يہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نيکي سے پيش آو-

وہ شخص کہتا ہے کہ جب ميں سيستان آيا اور حکمران کو خط ديا تو اس نے وہ خط اپني آنکھوں سے لگايا اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مسئلہ کيا ہے؟- ميں نے کہا کہ تمہارے افراد نے مجھ پر بہت بھاري ٹيکس لگايا ہے، آپ دستور ديں کہ يہ ٹيکس ختم کر ديا جائے- اس نے کہا کہ جب تک ميں حکمران ہوں تم ٹيکس ادا نہ کرو-

اس واقعہ سے اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ امام جواد  (ع) کا اثر و رسوخ کس حد تک تھا- امام محمد تقي  (ع) نے امامت کي بنيادوں کو مستحکم کيا اور اہلبيت ع کي موقعيت کو حفظ کيا- اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء اور دانشور حضرات جيسے يحيي بن اکثم جو ايک بڑي فقيہ تھا، کے ساتھ مناظروں کے ذريعے امام جواد  (ع) نے اہلبيت ع کا پيغام سب لوگوں تک پہنچايا- بني عباس کے حکمران کسي صورت نہيں چاہتے تھے کہ امام جواد  (ع) کي عظيم شخصيت سے لوگ آشنائي پيدا کريں لہذا انکو شہيد کرنے کے منصوبے بنانے لگے-

معتصم عباسي نے اپنے ايک وزير کے ذريعے امام محمد تقي  (ع) کو زہر کھلا کر شہيد کروا ديا- شہادت کے وقت امام جواد  (ع) کي عمر 25 سال اور کچھ ماہ تھي-

بشکريہ:  اسلام ٹائمز

شعبۂ  تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

حضرت امام محمد تقي عليہ السلام کي بعض کرامات