• صارفین کی تعداد :
  • 2773
  • 11/11/2012
  • تاريخ :

ولي فقيہ کے اختيارات کي حدود

ولی فقیہ

امام رح کے ولايت فقيہ کے بارے ميں پيش کئے گئے نظريے کو بہتر اور گہرائي کے ساتھ سمجھنے کے لئے يہ ضروري ہے کہ لفظ "مطلقہ" اور "مشروطہ" کے بارے ميں ان کي نظر کو سمجھا جائے اور اس بارے ميں ہر قسم کے شک سے پرہيز برتا جائے- امام رح لفظ "مطلقہ" کے بارے ميں جو تصور رکھتے تھے وہ ايک ايسي چابي کي مانند ہے جس کے ساتھ ہم ان کي سياسي فکر کے قلمرو ميں داخل ہو سکتے ہيں جو اکثر اوقات نزاع کا شکار ہوتي ہے-

امام رح کے سياسي نظريات ميں لفظ "مطلقہ" دو مفاہيم رکھتا ہے-

1- مطلقہ بہ معني "بے قيد و بند آزاد اور رہا"

2- بہ معني "عموم و شمول"

ہم پہلے مفہوم سے کافي حد تک آشنا ہيں- يہ مفہوم ايک ايسي استبداد گرانہ حکومت ميں تحقق پذير ہوتا ہے کہ جس کا حاکم خود کو ہر قيد و بند سے آزاد و رہا سمجھتا ہو، لفظ "مطلقہ" کا مفہوم ايک ايسا سياسي مفہوم ہے جو سياسي علوم ميں استعمال ہوتا ہے-

امام رح اس مفہوم کے بارے ميں کہتے ہيں:

"اسلامي حکومت آج کل کي موجودہ حکومتوں ميں سے کسي کي مانند نہيں ہے- مثلا ايک ايسي استبدادي حکومت نہيں کہ جس ميں حاکم ظالم اور خود رائے ہو لوگوں کي جان و مال کے ساتھ کھيلنے والا اور اس ميں مرضي سے تصرف کرنے والا ہو- جسے چاہے جان سے مار دے اور جسے چاہے انعام و اکرام سے نوازے جسے چاہے جاگيريں بخش دے اور عوامي املاک کو دوسروں ميں تقسيم کر دے- حضرت رسول (ص) حضرت امير المومنين علي بن ابي طالب عليہم السلام اور ديگر ائمہ معصومين عليہم السلام بھي ايسا کوئي اختيار نہيں رکھتے تھے- اسلامي حکومت نہ استبدادي حکومت ہے اور نہ ہے مطلقہ بلکہ ايک مشروطہ حکومت ہے-" 

افسوس کي بات ہے کہ آج کل بعض افراد اس لفظ کو فقط اسي مفہوم کے ساتھ موسوم کرتے ہوئے امام رح کے جملات کو اسي کے مطابق پرکھتے ہيں جبکہ امام رح کي نظر ميں ولايت فقيہ کے بارے ميں لفظ "مطلقہ" اس کے دوسرے مفہوم يعني "عمومي" کي طرف اشارہ کرتا ہے جو ايک فقہي اصطلاح ہے اس اصطلاح کو فقہي علوم ميں ہي ڈھونڈنا جانا چاہيئے-

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

فقيہ کي ولايت ( 4 )