• صارفین کی تعداد :
  • 4133
  • 3/28/2013
  • تاريخ :

مسلمان کو مغربي ثقافت سے بچنا چاہيۓ

قرآن حکیم

سائنس کي بہتر سمجھ کے ليۓ قرآني رہنمائي ضروري ہے

قرآن ايک کامل منشور حيات

قرآن کي آفاقيت اور مستشرقين و مفکرين کے نظريات

مسلمانوں کو قرآن کي روشني ميں زندگي بسر کرني چاہيۓ

افسوس کا مقام تو يہي ہے کہ نہ صرف يہ کہ آج کا مسلمان يہ جاننے کي واقعي کوشش نہيں کرتا کہ اسکي پسماندگي ِ، جوامع بشري اور اقوام عالم ميں حقارت کے کيا اسباب ہيں؟ بلکہ ان سب کو طاق نسياں پر رکھ کر کر اس بات کا درپے ہے کہ کس طرح اپنے مغربي آقائوں کي ادائوں کو اپنائے تاکہ اسے بھي مہذب کہا جا سکے لہذا آج بڑي ڈھٹائي کے ساتھ کچھ نافہم مسلمان يہ کہتے نظر آتے ہيں کہ اگر ترقي کرني ہے تو مغرب کي پيروي کرني ہي ہوگي  -

اگر آگے بڑھنا ہے تو مغربي کلچر کو اپنانا ہي ہوگا جب کے انہيں نہيں معلوم وہ فرہنگي قبا اسے کيا دے گي جس نے قبائے حيا و عفت کو تار تار کر رکھا ہے وہ فرہنگ و ثقافت اسے کيا دے گي جو خود اپني قبر کھودے منوں مٹي کے اندر دفن ہوا چاہتي ہے مسلمان مغربي تہذيب و ثقافت کي تقليد ميں اندھا ہوا جا رہا ہے اس سے بے خبر کہ

زندہ کر سکتي ہے ايران و عرب کو کيونکر

يہ فرنگي مدنيت کہ جو ہے خود لب گور

اسي لئے جو مغربي تہذيب کي تہہ تک پہونچ گيا ہے وہ جانتا ہے کہ اسکي ظاہري چمک دھمک محض فريب نظر ہے حقيقت ميں انسانيت کے لئے يہ تہذيب کسي ناسور سے کم نہيں ہے اسکي نوائے دلبري ميں نغمہ موت نہاں ہے اسکي آوازوں کے زير و بم نوع بشر کي بربادي کا استعارہ ہيں اور حقيقت ميں يہ تہذيب مقتل انسانيت ہے -

الحذر اين نغمہ موت است و بس -

نيستي در کسوت صوت است و بس ،

حقيقت تو يہ ہے مغرب کي ظاہري چمک دھمک کسي زہريلے سانپ کے رنگ برنگے کيچلوں سے کم نہيں جن کو ديکھ کر کبھي عقل مند انسان دھوکہ نہيں کھاتا اور خود کو اسکي گزند سے محفوظ رکھنے کے لئے کبھي اس سے قريب نہيں ہوتا ، چنانچہ اس تہذيب کو خود وہاں کے باشندے قاتل تہذيب کا نام ديتے نظر آتے ہيں   فرانزفتن '' کے بقول''  ہميں مکروہ نقالي ميں وقت ضائع نہيںکرنا چاہيے ، يورپ کو اپنے حال پر چھوڑ دو کہ وہاں کے لوگ انسان کے موضوع پر بات کرنے نکلتے ہيں ليکن انسان جہاں نظر آتا ہے اسے قتل کر ديتے ہيں'' (8) -

چوڑي شاہراہوں فلک بوس عمارتوں اور جگمگاتے شہروں کي تعمير ميں کتنے انسانوں کا قتل ہوتا ہے کون جانتا ہے ؟ کيا تہذيب کي علامت يہي ظاہري ترقي ہيں جہاں کہيں تو روشنيوں ميں ڈوبے شہروں ميں رقص و سرور کي محفليں گرم ہوں اور کہيں اپنے وجود کي تاريکيوں ميں ڈوبي ہوئي روحيں تڑپ تڑپ کر انسانني اقدار کا ماتم کر رہي ہوں ؟ کيا محض مادہ کي ترقي کو کمال کہا جا سکتا ہے کيا سنگ و خشت کے بل پر ہونے والي کرشماتي ہنر نمائيوں کو عروج انسانيت سے عبارت قرار ديا جا سکتا ہے -

يقينا بغير جودت و جولاني فکر جو چيز سامنے آئے گي اسکا نتيجہ و خس و خاشاک و سنگ و خشت کي صورت ہي ہو سکتا ہے جہان آرزو ميں رنگ و بوکي صورت سامنے نہيں ہو سکتا ہے -

جہان تازہ کي افکار تازہ سے ہے نمو

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہيں جہاں پيدا -

جہاں فکر کي ساري پرواز مادہ سے شروع ہو کر مادہ پر ختم ہو جاتي ہو جہاں تن آساني بدن پروري ہي مقصد حيات ہو وہاں ہر چيز گھوم پھر کر اپني پہلي منزل پر نظر آئيگي يہ وہ مقام ہے جہاں باہري دنيا کے انکشافات تو ہو سکتے ہيں ليکن اپنے وجود کي کائنات ميں اندھيرا ہي رہتا ہے چاند اور سورج پر کمنديں ڈالنے کے باوجود انسان اپنے وجود کي تاريکيوں کو ختم نہيں کر سکتا انسان کي اس سے زيادہ بے بسي اور کيا ہوگي ؟

ڈھونڈنے والا ستاروں کي گزر گاہوں کا

اپنے افکار کي دنيا ميں سفر کر نہ سکا -

جس نے سورج کي شعاعوں کو گرفتار کيا

زندگي کي شب تاريک سحر کر نہ سکا -

اپني تمنائوں اور آرزئوں کے خود ساختہ کنج قفس ميں قيد موت سے ہم کنار زندگي حيات آفريں روشني سے عاري ہي رہتي ہے  اور انجام کار زندگي کي شب تار ميں انسانيت ايڑياں رگڑ رگڑ کر دم توڑ ديتي ہے-

جبکہ اسلام زندگي کي تاريکيوں ميں جا بجا ان چمکتے ستاروں سے آشنا کرتا ہے جو نويد سحر ديتے ہوئے انسانيت کو جد و جہد اور لگن کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ ديتے نظر آتے ہيں  -

حوالہ:

(8)افتادگان  خاک ، از فرانزفتن ، ترجمہ ، سجاد باقر رضوي ، مطبوعات ، لاہور

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان