• صارفین کی تعداد :
  • 2773
  • 12/5/2013
  • تاريخ :

عزاداري ميں جزع اور بے چيني

عزاداری میں جزع اور بے چینی

سۆال:

عزاداري ميں جزع اور بے چيني کا کيا حکم ہے؟

 

جواب:

جزع اور بے قراري و بےچيني در حقيقت ہماري متعدد روايات و احاديث ميں وارد ہوئي ہے- ابتدا ميں کچھ مثاليں ملاحظہ ہوں:

روايت ہے کہ امام صادق (عليہ السلام) نے فرمايا:

{إِنَّ الْبُكاءَ وَ الْجَزَعَ مَكرُوهٌ لِلْعَبْدِ فِي كلِّ مَا جَزِعَ مَا خَلَا الْبُكاءَ عَلَى الْحُسَينِ بْنِ عَلِي عليه‏ السلام فَإِنَّهُ فِيهِ مَأْجُورٌ}- (1)

بندگان خدا کے لئے ہر مصيبت پر جزع کرنا اور گريہ اور بےچيني کرنا مکروہ ہے سوائے اس جزع اور بےچيني کے جس کا اظہار امام حسين بن علي (عليہما السلام) کي مصيبت ميں کيا جاتا ہے؛ پس بےشک بےچيني اور جزع کرنے والے کو اس صورت ميں اجر و انعام ملے گا-

ايک دوسري روايت ميں اميرالمومنين (عليہ السلام) رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ) کے جسد نوراني کو غسل ديتے وقت فرماتے ہيں:

{وَلَوْ لا أَنكَ أمَرْتَ بِالصَّبْرِ وَنَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ لَأَنفَدْنا عَلَيْكَ ماءَ الشُّۆُونِ، وَلَكانَ الدّاءُ مُماطِلاً، وَالْكَمَدُ مُحالِفا، وَقَلاًّ لَكَ}- (2)

"اگر آپ نے ہميں صبر کا حکم نہ ديا ہوتا اور بے تابي اور بےچيني سے منع نہ فرمايا ہوتا تو ہم اس قدر گريہ و زاري کرتے کہ ہمارے آنسو ختم ہوجاتے؛ آپ کي جدائي کا دکھ رخصت نہيں ہوتا بلکہ رکا ہوا ہے اور آپ کے فراق کا حزن و غم قسم خوردہ حليف کي طرح مسلسل ہمارے ساتھ ہے؛ آپ کے سوگ ميں ہم جتني بھي بےچيني کا اظہار کريں پھر بھي کم ہے-

 

حوالہ جات:

1- بحار الانوار الجامعة لدرر أخبار الائمة الاطهار، العلامة الحجة فخر الامة المولى الشيخ محمد باقر المجلسي (قدس الله سره) ج 45، ص 313-

2- نهج البلاغه، امير المۆمنين (عليہ السلام) خطبه 226-

 

 

ترجمہ : فرحت حسین مہدوی


متعلقہ تحریریں:

کربلا کا واقعہ

کربلا کا حيات بخش ہونا