• صارفین کی تعداد :
  • 2089
  • 4/2/2015
  • تاريخ :

یمن پر سعودی جارحیت

یمن، الحوثی گروہ کا پرامن اقدام

مصر کے شہر شرم الشیخ میں عرب لیگ کا سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت ہوا جب یمن کے بے گناہ شہریوں پر سعودی عرب اور اس کے چند اتحادیوں کے جنگی طیاروں کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔
عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ یمن کا مسئلہ سیاسی طریقے سے حل کیا جائے انہوں نے کہا کہ سب کو چاہئے کہ یمن کا مسئلہ پرامن طریقے سے حل کریں۔ اس درمیان سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے جارحانہ اور مداخلت پسندانہ اقدامات پر اصرار کرتے ہوئے دعوی کیا کہ جب تک یمن میں امن قائم نہیں ہو جاتا ان کا فوجی آپریشن جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مقصد کی تکمیل تک یہ حملے جاری رکھیں گے۔ جبکہ عراق کے صدر نے عرب لیگ کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ دوسری جانب پاکستان نے کہا ہے کہ یمن کی جنگ ایک فتنہ ہے ہم اس میں شریک نہیں ہوں گے۔ صنعا میں پاکستانی سفارتخانے نے اپنے بیان میں ان خبروں کی تردید کی ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی جارحیت میں پاکستان بھی شریک ہے۔ یمن میں پاکستانی سفیر عرفان یوسف شامی نے کہا کہ علاقائی اور عالمی ذرائع ابلاغ گمراہ کن پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ سعودی عرب کی سالمیت پر اگرآنچ آئی تو ہم اس کا دفاع کریں گے لیکن یمن میں سعودی عرب کے حملے میں پاکستان کی شرکت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ ہم تنازعے کو بڑھانے میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس درمیان پاکستان کی دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب نے یمن پر حملے کے تعلق سے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ اس درمیان عرب لیگ کے متعدد ملکوں کے سربراہوں نے یمن پر حملے تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ سنیچر کو شروع ہونےوالے اجلاس میں یمن کے مفرور صدر منصورہادی نے بھی شرکت کی۔ عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کا ایک اہم ایجنڈہ عرب لیگ کی مشترکہ فوج کی تشکیل ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس عرب لیگ کی مشترکہ فوج کی تشکیل کے بارے میں ایک بڑی آزمائش ثابت ہو گا۔ واضح رہے کہ یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کی قیادت میں عوامی کمیٹیوں کی کامیابی اوریمن میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آنے کے بعد یمن کے صدر منصورہادی نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا، جس کا مقصد یمن میں سیاسی اور سیکورٹی کا بحران کھڑا کرنا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد منصورہادی صنعا سے عدن فرار کر گئے اور پھر جب عدن پر بھی یمنی عوام کی کمیٹیوں کا کنٹرول ہو گیا تو وہ سعودی عرب فرار کر گئے۔ منصور ہادی کے یمن سے فرار کر جانے کے بعد سعودی عرب نے خلیج فارس کے کچھ عرب ملکوں کے ساتھ مل کر یمن کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس ملک پر ہوائی حملے شروع کر دیئے۔ اس حملے میں سعودی عرب کو امریکا کی بھی حمایت حاصل ہے جبکہ یمنی عوام کا کہنا ہےکہ یمن کے تعلق سے سعودی عرب اور اسرائیل کا مقصد ایک ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے جنگی طیاروں کے حملے میں اب تک بڑی تعداد میں معصوم اور بے گناہ شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ یمن کی بہ سی اہم اور بنیادی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کی ایران سمیت دنیا کے مختلف ملکوں نے مذمت کی ہے۔
تحریک انصار اللہ کے قریبی ذرائع نے جمعرات کے روز ہمارے نمائندے سے بات چیت میں یمن کے شہر عدن میں غیرملکی افواج کے داخل ہونے کی تردید کی ہے- اس سے قبل بعض خبری ذرائع نے دعوی کیا تھا کہ مصر اور سعودی عرب کے دسیوں فوجی عدن میں داخل ہو گئے ہیں- سعودی عرب نے یمن کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی اور اس کے داخلی امور میں مداخلت کرتے ہوئے چھبیس مارچ سے یمن کے کئی علاقوں پر ہوائی حملے شروع کر رکھے ہیں- ان حملوں میں اب تک سینکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں-

 


متعلقہ تحریریں:

امریکی حمایت یافتہ داعش گروہ

ایران کی فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی