• صارفین کی تعداد :
  • 3967
  • 1/15/2008
  • تاريخ :

اوصياء نبي (ص)

رز زرد

251۔ رسول اکرم ! میں سید الانبیاء والمرسلین اور افضل از ملائکہ مقربین ہوں اور میرے اولیاء تمام انبیاء و مرسلین کے اوصیاء کے سردار ہیں ۔( امالی صدوق (ر) ص 245 ، بشارة المصطفی ٰ ص 34)۔

252۔ رسول اکرم ! میں انبیاء کا سردار ہوں اور علی (ع) بن ابی طالب (ع) اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے اوصیاء میرے بعد کل بارہ ہوں گے جن کے اول علی (ع) بن ابی طالب ہوں گے اور آخری قائم ۔( کمال الدین ص 280 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 64 ، فرائد السمطین 2 ص 313۔

253۔ رسول اکرم ! ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہوتاہے اور علی (ع) میرا وصی اور وارث ہے(الفردوس 3 ص 336)۔

تاریخ دمشق حالات امیر المؤمنین (ع) 3 ص 5 / 1021 ، 1022 ، مناقب خوارزمی 84/ 74 ، مناقب ابن المغازلی ص 200 / 238)۔

254۔ سلمان ! میں نے رسول اکرم سے عرض کی کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتاہے تو آپ کا وصی کون ہے ؟ آپ خاموش ہوگئے، اس کے بعد جب مجھے دیکھا تو آوازی دی ، میں دوڑ کر حاضر ہوا ۔ فرمایا تمھیں معلوم ہے کہ موسی ٰ (ع) کا وصی کون ہے ؟ میں نے عرض کی یوشع بن نون ! فرمایا کیسے ؟ عرض کی کہ وہ سب سے بہتر تھے۔ فرمایا تو میرا وصی اور میرے اس امر کا مرکز اور میری تمام امت میں سب سے بہتر، میرے تمام وعدوں کو پورا کرنے والا اور میرے قرض کا ادا کرنے والا علی (ع) بن ابی طالب ہوگا۔ (المعجم الکبیر 6 ص 221 / 63 60 ، کشف الغمہ 1 ص 157)۔

255۔ رسول اکرم حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی خدایا میرے اوصیاء کون ہیں ؟ ارشاد ہوا ۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء کون ہیں؟ ارشاد ہوا۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھاکر دیکھا اور بارہ نور چمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع)۔

میں نے عرض کی خدایا یہی میرے اوصیاء ہیں؟ ارشاد ہوا ، اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھاکر دیکھا اور بارہ نورچمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع) میں نے عرض کی خدایا یہی میرے بعد میرے اوصیاء ہیں ؟ ارشاد ہوا اے محمد ! یہی میرے اولیاء ، احباء ، اصفیاء اور تمھارے بعد مخلوقات پر میری حجت ہیں اور یہی تمھارے اوصیاء خلفاء اور تمھارے بعد بہترین مخلوقات ہیں۔(علل الشرائع 6 ص 1 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 264 ، کمال الدین ص 256 از عبدالسلام بن صالح الہروی از امام رضا (ع) )۔

256۔ رسول اکرم کا وقت آخر تھا اور جناب فاطمہ (ع) فریاد کررہی تھیں کہ آپ کے بعد میرے اور میری اولاد کے برباد ہوجانے کا خطرہ ہے، امت کے حالات آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں تو آپ نے فرمایا ، فاطمہ (ع) ! کیا تمھیں نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کے لئے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے اور تمام مخلوقات کے لئے فناکو مقدر کردیا ہے، اس نے ایک مرتبہ مخلوقات پر نگاہ انتخاب ڈالی تو تمھارے باپ کو منتخب کرکے نبی قرار دیا اور دوبارہ نگاہ ڈالی تو تمھارے شوہر کا انتخاب کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں تمھارا عقد ان کے ساتھ کردوں اور انھیں اپنا ولی اور وزیر قرار دیدوں اور امت میں اپنا خلیفہ نامزد کردوں تو اب تمھارا باپ تمام انبیاء و مرسلین سے بہتر ہے اور تمھارا شوہر تمام اولیاء سے بہتر ہے اور تم سب سے پہلے مجھ سے ملنے والی ہو۔

اس کے بعد مالک نے تیسری نگاہ ڈالی تو تمھیں اور تمھارے دونوں فرزندوں کا انتخاب کیا، اب تم سردار نساء اہل جنت ہو اور تمھارے دونوں فرزند سرداران جوانان اہل جنّت ہیں اور تمھاری اولاد میں قیامت تک میرے اوصیاء ہوں گے جو ہادی اور مہدی ہوں گے، میرے اوصیاء میں سب سے پہلے میرے بھائی علی (ع) ہیں، اس کے بعد حسن (ع) اس کے بعد حسین (ع) اور اس کے بعد نو اولاد حسین (ع) یہ سب کے سب میرے درجہ میں ہوں گے اورجنّت میں خدا کی بارگاہ میں میرے درجہ سے اور میرے باپ ابراہیم کے درجہ سے قریب تر کوئی درجہ نہ ہوگا ۔( کمال الدین ص 263 از سلیم بن قیس الہلالی)۔

257۔ امام حسین (ع) ! پروردگار عالم نے حضرت محمد کو تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے، انھیں نبوت سے سرفراز کیا ہے، رسالت کے لئے انتخاب کیا ہے، اس کے بعد جب انھیں واپس بلالیا، اس وقت جب وہ بندوں کو نصیحت کرچکے اور پیغام الہی کو پہنچا چکے تو ہم ان کے اہلبیت (ع) اولیاء ، اوصیاء، ورثہ اور تمام لوگوں سے زیادہ ان کی جگہ کے حقدار تھے لیکن قوم نے ہم پر زیادتی کی تو ہم خاموش ہوگئے اور ہم نے کوئی تفرقہ پسند نہیں کیا بلکہ عافیت کو ترجیح دی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان تمام لوگوں سے زیادہ حقدار میں جنھوں نے اس جگہ پر قبضہ کرلیا تھا، ۔( تاریخ طبری 5 ص 357 از ابوعثمان نہدی، البداینة والنہایتہ 8 ص 157)۔

258۔ امام محمد باقر (ع) ! پروردگار کی بارگاہ میں سب سے زیادہ قریب تر ، لوگوں سے سب سے اعلم اور مہربان حضرت محمد اور ائمہ کرام ہیں لہذا جہاں یہ داخل ہوں سب داخل ہوجاؤ اور جس سے یہ الگ ہوجائیں سب الگ ہوجاؤ، حق انھیں میں ہے اور یہی اوصیاء میں اور یہی ائمہ ہیں ، جہاں انھیں دیکھو ان کا اتباع شروع کردو( کمال الدین ص 328 از ابوحمزہ الثمالی)۔

259۔ محمد بن مسلم! میں نے امام صادق (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ اللہ کی کچھ مخصوص مخلوق ہے جسے اس نے اپنے نور اور اپنی رحمت سے پیدا کیا ہے، رحمت سے رحمت کے لئے، یہی خدا کی نگرانی کرنے والی آنکھیں اس کے سننے والے کان، اس کی اجازت سے بولنے والی زبان اور اس کے تمام احکام و بیانات کے امانتدار ہیں، انھیں کے ذریعہ وہ برائیوں کو محو کرتاہے، ذلت کو دفع کرتاہے، رحمت کو نازل کرتاہے، مردوہ کو زندہ کرتاہے، زندہ کو مردہ بناتاہے، لوگوں کی آزمائش کرتاہے، مخلوقات میں اپنے فیصلے نافذ کرتاہے۔ تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان، یہ کون حضرات ہیں، فرمایا یہ اوصیاء ہیں ۔( التوحید ص 167 ، معانی الاخبار ص 16)۔

260۔ امام ہادی (ع) نے زیارت جامعہ میں فرمایا کہ سلام ہو ان پر جو معرفت الہی کے مرکز۔ برکت الہی کے مسکن، حکمت الہی کے معدن، راز الہی کے محافظ، کتاب الہی کے حافظ ، رسول اللہ کے اوصیاء اور ان کی ذریت ہیں، انھیں پر رحمت اور انھیں پر برکات۔(تہذیب 6 ص96 / 177)۔

مولف! واضح رہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کے اوصیاء رسول ہونے کی روایات بہت زیادہ ہیں جن کے بارے میں ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی کا ارشاد ہے کہ قوی اسناد کے ساتھ صحیح اخبار میں اس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ رسول اکرم نے اپنے معاملات کی وصیت حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) کو فرمائی اور انھوں نے امام حسن (ع) کو … اور انھوں نے امام حسین (ع) کو … اور انھوں نے علی بن الحسین (ع) کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن موسیٰ کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن محمد (ع) کو … اور انھوں نے حسن (ع) بن علی (ع) کو … اور انھوں نے اپنے فرزند حجت قائم کو فرمائی کہ اگر عمر دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو خدا اس دن کو اس قدر طول دے گا کہ وہ منظر عام پر آکر ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں، پروردگار کی صلوات و رحمت ان پر اور ان کے جملہ آباء طاہرین پر ۔ (الفقیہ 4 ص 177)۔