• صارفین کی تعداد :
  • 4393
  • 1/16/2008
  • تاريخ :

فقیہ کی ولایت ( 4 )

 

لاله بنفش

ایک شرط اور لازم ھے  وہ ھے اسلامی سماج کو چلانے اور لوگوں کی رھبری کرنے کی صلاحیت اور طاقت یعنی پلان ، پروگرام اور دور اندیشی (Provident)کا ھونا ۔ دنیا اور سماج کے حالات کو اچھی طرح سے پھچاننا ، شجاع ھو نا اور اپنے زمانہ کے مسائل سے آگاہ ھو نا ۔ سیاسی کفایت (Political Sufficiency)اور مدیریت کا ھونا ۔

یہ بالکل روشن ھے کہ اگر ایک فقیہ اور مجتھد دینی مسائل ، زھد اور تقویٰ میں بھت بلند درجہ رکھتا ھو لیکن وہ سماج اور دنیا کے حالات سے واقف نہ ھو ، دور اندیشی اور مدیریت کی صلاحیت نہ رکھتا ھو ، بزدل ھو ، تو ایسی صورت میں یہ ممکن نھیں ھے کہ اتنی بڑی اور فریبی دنیا میں اتنے دشمنوں کی دشمنی کے با وجود ، کروڑوں مسلمانوں کی باگڈور اسکے ھاتھوں میں دے دی جائے  یعنی خدا نے اس صورت میں اس کے لئے اس حق اور ولایت کو قرار نھیں دیا ھے ۔ مسلمانوں کی رھبری ، ولایت اور سر پرستی ایک بڑی ذمہ داری ھے  جو شرعی مسائل اور مقلد کے سوالات کے جوابات  دینے سے کھیں بزرگ اور اھم ھے ۔ پھلے بھی اشارہ کیا جا چکا ھے کہ رھبر کو علمی اور اخلاقی صلاحیت رکھنے کے علاوہ ھوشیار ، دور اندیش ، آگاہ اور اصولوں کا پختہ ھونا چاھئے ۔

” ولایت فقیہ “ زمانہ غیبت میں اسلامی سماج کو چلانے کا سب سے ایڈوانس اور بھترین طریقہ ھے  یعنی سب سے لائق ، عقلمند ، اسلام شناس اور فقیہ شخص خدا کے بندوں کی رھبری اور ولایت کی ذمہ داری اپنے دوش پرلے سکتا اور سماج کو دین خدا کے اصول اور بنیادوں پر چلاسکتاھے ۔ ھر عاقل شخص اس طریقے کو پسند اور قبول کرے گا ۔ یہ مینجمنٹ کا بھترین طریقہ ھے کہ ایک ادارہ  اور کمپنی میں کام کرنے والے کے لئے اس کی ذاتی شرافت اور پاکیزگی کے علاوہ اسکے علم ، مینجمنٹ اور کام کرنے کی صلاحیت کی طرف بھی نظر کی جاتی ھے ۔ اسی طرح رھبر کے انتخاب میں بھی ان صفات کا خیال رکھا جاتا ھے ۔

جو کچھ ” ولایت فقیہ “ کے عنوان سے بیان کیا گیا ھے ، اس کا خلاصہ یہ ھے کہ سماج ایک ایسے شخص کے کنٹرول میں ھونا چاھئے ، جو خدا وند متعال کے بنائے ھوئے قانون کا علم رکھتا ھو ، ساتھ ھی ، عدالت ، پاکیزگی ، لیاقت اور سماج کے مینجمنٹ کا طریقہ بھی جانتا ھو  یہ  زمانہ غیبت  میں ، فلسفہ  سیاست اور مسلمانوں کی حکومت کے سلسلے میں مکتب تشیع  کا نظریہ ھے ۔ جسے اصطلاح میں ” ولایت فقیہ “ کھتے ھیں ۔

اس جگہ پر مناسب ھے کہ امام خمینی (رہ ) کے قول کا ذکر کیا جائے ۔ آپ دو شرائط حاکم کے سلسلہ میں بیان کرتے ھیں:” قانون کا علم “ اور” عدالت “ یہ باتیں ھمارے زمانہ کے بھت سے علماء میں پائی جاتی ھیں ۔ : اگر ایک لائق اور با صلاحیت شخص ان دو صفات کو رکھتا ھو تو اسے حکومت کے لئے قدم بڑھا دینا چاھئے ۔ وھی ” ولایت “ جو رسول خدا  سماج کو چلانے کے لئے رکھتے تھے  یہ شخص بھی رکھتا ھے اور لوگوں پر واجب ھے کہ اس کی اطاعت کریں ۔ (1)

اب جب امام خمینی (رہ) کا کلام ھمارے درمیان آھی گیا ھے تو انکے اس کلام پر بھی غور کرتے چلیں ۔

جس طرح پیغمبر اکرم  کواحکام الٰھی کے نفاذاور اسلامی نظام (Islamic System) کو برقرار کرنے کا حکم دیا گیاتھا اور خدا وند متعال نے انکو مسلمانوں کا حاکم و رئیس مقرر کیا تھا اور لوگوں کے لئے انکی اطاعت کو واجب قرار دیا تھا اسی طرح سے عادل فقھا بھی رئیس اور حاکم ھو سکتے ھیں اور احکام کونافذکر سکتے ھیں اور اسلام کے اجتماعی نظام (Social System Of Islam) کی بنیاد ڈال سکتے ھیں ۔(2)

 

 

حوا لے

1۔حکومت اسلامی ص ۶۳

2۔حکومت اسلامی ص ۹۲