• صارفین کی تعداد :
  • 2914
  • 4/9/2008
  • تاريخ :

الجھن

احمد نديم قاسمي

برات آئي، خير کيلئے ہاتھ اٹھائے گئے اور اس کے بياہ کا اعلان کيا گيا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لال دوپٹے ميں سمٹي ہوئي سوچنے لگي کہ اتنا بڑا واقعہ اتنے مختصر عرصے ميں کيسے تکميل تک پہنچا، وہ تو يہ سمجھے بيٹھي تھي کہ جب برات آئے گي تو زمين اور آسمان کے درميان الف ليلہ والي پريوں کے غول  ہاتھوں ميں ہاتھ ڈالے، پروں سے ملائے بڑا پيارا سا ناچ ناچيں گے، بکھرے ہوئے تارے ادھر ادھر سے کھسک کر ايک دوسرے سے چمٹ جائيں گے اور ٹمٹاتے ہوئے بادل کي شکل اخيتار کر ليں گے، اور پھر يہ بادل ہولے ہولے زميں پر اترے گا، اس کے سر پر آکر رک جائے گا اور اس کے حنا آلود انگھوٹے کي پوروں کي لکيريں تک جھلملا اٹھيں گيں، دنيا کے کناروں سے تہنيت کے غلفے اٹھيں گے اور اس کے باليوں بھرے کانوں کے قريب آکر منڈ لائيں گے۔۔۔۔۔۔۔وہ تو يہ سمجھتي تھي کہ يہ دن اور رات کا سلسلہ صرف اس کے بياہ کے انتظار ميں ہے، بس جو نہي اس کا بياہ ہوگا، پورب پچھم پر ايک مٹيالا سا اجالا چھا جائے گا۔۔۔۔۔جسے نہ دن کہا جاسکے گا اور نہ ہي رات۔۔۔۔۔۔بس جھٹپٹے کا سا سماں رہے گا قيامت تک اور جونہي برات اس کے گھر کي دہليز الانگے گي يہ سارا نظام کھلکھلا  کر ہنس دے گا اور تب سب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آج گوري کا بياہ ہے۔

ليکن بس برات آئي، لمبي لمبي داڑھيوں والوں نے آنکھيں بند کرکے دعا کيلئے ہاتھ اٹھائے، شکر اور تل تقسيم کئے گئے اور پھر اسے ڈولي ميں دھکا دے يا گيا، ڈھول چنگھاڑنے لگے، شہنائيان بکلنے لگيں، گولے بھونکنے  لگے اور وہ کسي ان ديکھے ، ان جانے گھر کو روانہ کردي گئي۔

ڈولي ميں سے بہت مشکل سے ايک جھري بنا کر اس نے ميراسيوں کي طرف ديکھا، کالے کلوٹۓ بھتنے، ميال ڈھول اور مري ہوئي سنپوليون کي سي شہنائيوں ، نہ بين نہ باجہ نہ تونتنياں نہ انٹوں کے گھٹنوں پر جھنجناتے ہوئے گھنگرو، نہ گولے نہ شرکنياں، جيسے کسي کي لاش قبرستان لے جا رہے ہوں۔

ہاں وہ لاش  ہي تو تھي اور يہ ڈولي اس کا تابوت تھا، سفيد کفن کے بجائے اس نےلال کفن اوڑھ رکھا تھا اور پھر يہ نتھ، بلاق، جھومر، ہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالياں۔۔۔۔۔۔۔۔۔يہ قبر والے بچھو اور کھنکجورے تھے، جو اسے قدم قدم پر ڈس رہے تھے۔

ڈولي کے قريب بار بار ايک بوڑھے کي کھانسي کي آواز آرہي تھي، شايد وہ دولہا کا باپ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جس دولھا کا باپ پل پل بھر بعد بلغم کے انتے بڑے بڑے گولے پٹاخ سے زمين پر دے مارتا ہے، وہ خود کيسا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ري۔

وہ رو دي، وہ اس سے پيشتر بھي روئي تھي، جب اس کي ماں نے اسے گلے سے لگايا اور سرگوشي کي۔۔ميري لاڈلي گوري۔۔۔تيري عزت ہماري عزت ہے، تو اب پرائے گھر جارہي ہے، بڑے سليقے سے رہنا ورنہ ناک کٹ جائے گي، ہماري۔۔۔۔۔۔۔۔۔يعني اس کي ماں کو اس موقعہ پربھي اپني ناک کي فکر ہوئي بھٹی ميں دانہ اسپند ڈال ديا جائے۔۔۔۔۔ماں کو اس کے دل کي پراوہ نہ تھي، اس وقت دکھاوے کي خاطر وہ روئي بھي ، سسکياں بھي بھري، گلووان کے دوپٹۓ سے آنسو بھي پونچھے، پر اس نے رونے ميں کوئي مزا نہ تھا، يہاں ڈولي ميں اس کي آنکھوں ميں نمي تيري ہي تھي کہ اس کے روئيں روئيں ميں ہزاروں خفتہ بے قرارياں جاگ اٹھيں۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہنائياں اس کا ساتھ ديتي رہيں، ڈھول پٹتا رہا، جب ڈولي دولھا کے گھر  پہنچي تو ايک گولہ چھوٹا جيسے کسي بيمار کو مري مري چھيک آئے، اسے اپني سہيلي نوري پر بہت غصہ آيا جو بياہ کے گيت گانے ميں تاک سمجھي جاتي تھي اور جس نے ايک بار گوري کو چھيڑنے کيلئے بھرے مجمع ميں ايک گيت گايا تھا۔

عطر پھليل لگالے ري گوري                        سيج بلائے توئے

گوري نے ڈولي سے باہر قدم رکھا ہي تھا کہ آنگن سے اس پار تک روئي کي ايک پگڈنڈي سي بچھا دي گئي، اس کي ساس اس سے يوں لپٹ گئي جيسے گوري نے شراب پي رکھي ہوں، اور ساس کو اس کے لڑکھڑانے کا خوف دامن گير ہے، گوري نرم نرم روئي پر چلي تو اسے يونہي شک گزرا کہ واقعي يہ واقعہ تھا تو بڑا، اس کا اپنا اندازہ غلط تھا، آخر اتني ملائم روئي صرف اسي لئےتو خاک پر نہيں بھچائي گئي تھي، کہ اس کے مہندي رہے پائوں ميلے نہ ہوں، پر جونہي اس نے اس شبہ کو يقين ميں بدلنا چاہا تو اچانک اس کے پائوں  زميں کي سخت ٹھنڈي سطح سے مس ہوئے اور سراب کي چمک ماند پڑ گئي۔۔۔۔۔۔۔۔روئي ختم ہوچکي تھي۔

اب سے سخت سزا بگھتنا پڑگئي، اسے ايک کونے ميں بيٹھا ديا گيا، اس حالت مين کہ اسکا سر جھک کر اس کے گھٹنوں کو چھورہا تھا اور اس کے گلے کا ہار آگے لٹ  کر اس کي تھوڑي سے لپٹا پڑا تھا، گائوں والياں آنے لگيں، اکني چوني اسکے مردہ ہاتھ ميں ٹھونس دي اور گھونگھٹ اٹھا اٹھا کر بٹر بٹر اس چہرے کو گھورا جانے لگا۔۔۔۔جيسے لاش کے چہرے سے آخري ديدار کي خاطر کفن سرکا ديا جاتا تھا۔۔۔۔

سارا دن اس کي ناک کے بانسے، اس کي پلکوں کے تنائو، اس کے  ہونٹوں کے خم، اس کے نام اور اس کے رنگ، اس کي اتني بڑي نتھ اور جھومر اور باليوں کے متعلق تذکرے کئے گئے، اور جب سورج پچھم کي طرف لٹک گيا تو اس کے آگے چوري کا کٹورا ادھر ديا گيا، اس کي ساس ناک سڑ سٹراتي اس کے پاس آئي اور بولي لئ ميري راني کھالے چوري؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔جيسے نئے نئے طوطے کو پچکارا جاتا ہے، اسے ايک بار خيال آيا کہ کيوں نہ نئے طوطے کي طرح لپک کر اس کي ناک کاٹ لے، مگر اب اس نے ايک اور موضوع پر بولنا شروع کرديا تھا، کيا کروں بہن عجيب مصيبت ہے، جي آتا نگوڑي ناک کو  کاٹ کر پھينکوں، بہ چلي جار رہي ہے، اتني چھينکيں آتي ہيں، بہن اور اتني بڑي چھينکيں کہ اللہ قسم انتڑياں کھنچ جاتي ہيں، ادھر ميرے لال کا بھي يہي حال ہے، پڑا چھيکنتا ہے پلنگ پر، اور اس کا باپ تو کھانس کھانس کر ادھ موا ہورہا ہے،۔

گوري کا جي متلا گيا۔۔۔۔

پرے کونے ميں دبکي ہوئي ايک بڑھيا نے اپنے زخم کا تذکرہ چھيڑ ديا، چھينک آتي بھي ہے اور نہيں بھي، بس يوں منہ کھولتي ہوں اور کھولے رکھتي ہوں، اور چھينک پلٹ جاتي ہے اور دماغ ميں وہ کھلبلي مچتي ہے کہ چاہتي ہوں چولھے ميں دے دوں اپنا سر۔۔۔

عام شکايت ہے دوسري بولي۔۔۔

پہلي نے اپني بينگن جيسي ناک کو صادر تلے چھپا کر کہا، پر ميں تو سمجھتي ہوں يہ آفت صرف مجھ پر پڑي ہے، اوروں کو زکام ہوتا ہے کہ دماغ ميں کھلبي ہوئي، چھينک آئي اور جي خوش ہوگيا، يہاں تو يہ حال ہے کہ زکام کي فکر الگ اور جھينک کي الگ۔۔۔

اور خدا جانے کيا بات ہوئي کہ گوري کو بھي چھينک آگئي اس کي ساس اور اوسان خطا ہوگئے، تجھے بھي چھينک آگئ، اے ہے، اب کيا ہو گا، نئي نويلي دلہن کو اللہ کرے کبھي چھينک نہ آئے، بنفشے کا کاڑھا بنالائوں؟ پر اس صدي ميں تو بنفشے کا اثر ہي ختم ہوگيا، گرم گرم چنے ٹھيک رہيں گے وہ يہ کہ تيزي سے اٹھي تو چادر پائوں ميں الجھ گئي، ہڑ بڑا کر پرلے کونے ميں بڑھيا پر جا گري، وہ بے چاري چھينک کو دماغ سے نوچ چھيکنے کي کوشش ميں تھي کہ يہ نئي آفت ٹوٹي تو اس کہ منہ سے کچھ ايسي آواز نکلي جيسے گيلا گولا پٹھتا ہے۔

ہڑبونگ مچي تو  گوري سب کے دماغ سے اتر گئي اور جب کچھ سکون ہوا تو بوڑھي نائن کولہوں پر ہاتھ رکھے اندر آئي اور گوري کے پاس بيٹھ کر بولي۔۔

اے ہے ميري راني، ابھي تک چوري نہيں کھائي تو نے؟ نوج ايسے لاج بھي کيا؟

ان دلہوں کو کيا ہوجاتا ہے، دو دو دن ايک کھيل بھي اڑ کر نہيں جاتي پيٹ ميں اور منہ مچوڑے بيٹھي ہے۔

جي نہيں چاہتا۔

جي چاہتا ہے اندر سے، پر يہ نگوڑي لاج نيا گھر۔۔۔۔۔۔۔۔نئے لوگ پر گوري راني میں تو تيري وہي پراني نائن ہوں، جانے کے بار مينڈھياں بنائيں، کے بار کنگھي کي، وہ ايک بار تيرا بندا اٹک گيا تھا بالوں ميں، تو چلائي تو گھر بھر مچل اٹھا، بڑي بوڑھيوں کا جمگھٹ ہوگيا، کوئي بندے کو مروڑ رہي تھي، کوئي بالوں کي لٹيں کھيچ رہي تھي اور تو گلاب کا پھول بني جارہي تھي۔

دکھ سے، میں آئي بالوں کي ايک لٹ کو ادھر اٹھايا، ايک لٹ کو ادھر کھسکايا اور بندا اپني جگہ پر آ گيا، ياد ہے نہ؟۔۔۔۔۔۔۔پر تو چوري کيوں نہيں کھاتي؟ يہ بھي کوئي بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور نائن نے گوري کا گھونگھٹ اٹھا کر کٹورا  آگے بڑھا ديا۔

گوري کو تو جيسے  آگ لگ گئي، چوري کھائي تو ہيٹی ہو سب کہيں چار دن سے بھوکي تھي، بھوکے کے گھر سے آئي ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر ہاتھ اٹھا کر کٹورے  کو پرے چکھيلتي ہےتو چوڑياں بجتي ہيں، يہ کم بخت بلور کي چوڑيا جن کے چھنا کے ميں چھرياں تيزکے جانے کي آواز تھي، بڑي بوڑھياں کہنيوں تک ٹھونس ديتي ہيں چوڑياں اور پھر  ساتھ ہي يہ بھي کہتي ہيں کہ آواز نہ آئے زيور کي، لوگ بےشرم کہيں گے۔۔۔

گوري پہلے تو بت بني بيٹھي رہي ليکن جب نائن نے کٹورا اتنا آگے بڑھا ديا کہ وہ اس کے چولے کو چھونے لگا تو وہ ضبط نہ کرسکي، سرگوشي سے بھي کہيں مدہم آواز ميں بولي، ميں نہيں کھائوں گي، کيوں نہيں کھائے گي؟ نائن نے اب گوري کا گھونگھٹ اٹھا کر اپنے سر پر ڈال ليا تھا، کيوں نہيں کھائے گي؟ ميں کھلا کے چھوڑوں گي، تو نہيں کھائے گي تو ميں بھي نہيں کھائوں گي، ہاں پر تو تو ضرور کھائے گي، يہ ديکھ ميں کھا رہي ہوں، ديکھ نا گوري دلہن۔۔۔۔۔اس نے چوري مٹھي بھري اور پوپلے ميں ٹھونس کر بولي اب کھا بھي لے گوري راني۔

ميں نہيں کھائوں گي،  گوري نے يہ الفاظ کچھ اونچي آواز ميں کہے اور گھونگھٹ کھيچ کر  ديوار سے لگ گئي، چوڑياں بجيں تو عورتيں منمانے لگيں۔

نہي نويلي دلہنوں کو پہلے دن کبھي بولتے نہ سنا تھا۔

اور پھر ايک جگہ جم کر  بيٹھي ہي نہيں، تڑپ رہي ہے پارے کي طرح۔

اس صدي کے بياہ کيا ہوتے ہيں مداري کھيل دکھاتا ہے۔

ہم نے ديکھي ہيں دلہن، ايک ايک مہينہ نہيں بوليں کسي سے۔۔۔۔۔۔ايک ايک مہينہ۔۔۔۔

مجھے تو اور کسي کي بات ياد نہيں، يہ سامنے نائن بيٹھي ہے ہماري، دس دن تک منہ ميں گھنگھنياں ڈالے بيٹھي رہي، گيارہويں دن زبان بھي ہلائي تو بس اذان کے بعد کلمہ پڑھا۔

نائن يوں ہنسنے لگي جيسے ٹين کے ڈبے ميں کنکر ڈال کر اسے لڑھکا ديا جائے، بولي کسي سے غلط بات سني تو نے، ميں نے تو جيسے ہي نئے گھر ميں قدم دھرا اور ساس نے سہارا ديا تو بلبلا اٹھي تھي، کيا لپٹي پڑتي ہے مجھ کو، ميں کوئي لنڈوري چڑيا توتھوڑي ہوں کہ اڑ جائوں گي پھر سے، يہيں رہنے آئي ہوں يہیں رہوں گي، ساس اپنا سا منہ لے کر رہ گئي اور ميں نے اسي روز دن ڈھلے سہيليوں سے گيٹياں کھيلي۔

کون گيٹياں کھيلي، گوري کي ساس دامن ميں چنے ڈالے اندر آئي۔۔۔۔دلہن کے ساتھ گيٹيوں کي باتيں کي جاتي ہيں؟ اتني عمر گزر گئي، سينکڑوں بار دايہ بني پر بات کرنے کا ڈھب نہ آيا تجھے۔۔۔بھونےہوئے چنوں کي خوشبو سے کمرہ مہک گيا، ليکن شادي کے روز سسرال ميں پہلے پہل چنوں سے فاقہ توڑنا برا شگون تھا اس لئے گوري اپنے آپ کو اس نئے حملے سے محفوظ رکھنے کي کوشش کرنے لگي، نائن کا بازو چھوا اور جب وہ اس کے بالکل قريب ہوگئي تو آہستہ سے بولي مجھے نيند آئي ہے۔

گوري کي ساس نے نائن سے پوچھا کيا کہتي ہے؟

نائن ناک پر انگلي رکھ کر بولي کہتي مجھے نيند آئي ہے؟۔۔۔۔۔اور پھر ٹين کے ڈبے ميں کنکر بجنے لگے۔۔۔ميري راني نيدن کي بھي ايک ہي کہي تو نے۔۔۔۔۔تيري نيند ۔۔۔۔دلہن کي نيند۔۔۔۔۔۔اب ميں کيا کہوں؟ گلے ميں پھندا پڑا ہے۔

يہاں گوري کي ساس نے رحمت کے فرشتے کا روپ دھار ليا بولي، اے رہنے بھي دے بات بات پر دانت نکال رہي ہے، نائن ہوتو سليقے والي ہو يہ بھي کيا ادھر بات ہوئي ادھر منہ پھاڑ کر حلق کا کوا دکھا ديا، اتنا نہيں سوچا کہ دن بھر کي تھکن ہے۔۔۔۔سو چا ميري گوري راني۔۔۔۔پر يہ چنے۔

اونہک گوري ايک طرف جھک گئي اور قريب ہي بيٹھي ہوئي ادھيڑ عمر کي ايک عورت گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بولي۔بڑي لاڈلي دلہن ہے۔۔۔

سب عورتيں باہر نکل گئيں مگر گوري کي آنکھوں ميں نيند کہاں آج تو نيند کي جگہ کاجل نے لے لي ہے، آنکھيں جھپکاتي رہي اور سوچتي رہي، واہ رے ميرے پھوٹے بھاگ يہي بياہ ہے تو واري جائوں کنوارے پن پے، کيا زمانہ تھا کون  سي بات ياد کروں، کس کس کو ياد کرو، وہ ساون کي چھم چھم ميں کڑےنيم کے ٹہنے ميں چھولنا، جھولا آگے لپکتا ہےتو ٹھنڈي پھوار دھو ڈالتي ہے، جھولا پيچھا ہٹتا ہے، تو خوشبو ميں بسي ہوئي لٹيں چہرے کو پونچھ ڈالتي ہيں، آس پاس کا جھرمٹ بھيگي بھيگي ڈھولک کي ميٹھي ميٹھي آواز اور نوري کا نرس بھرا گيت۔۔۔

موہے ساون کي رم جھم بھائے رے۔۔

بھيا کے کانوں ميں سونے کي مرکي۔۔

پھول پہ تتلي آئے رے۔۔۔۔

موہے ساون کي رم جھم بھائے رے۔۔

اور پھر اسي شرير نوير کے کھلے آنگين ميں چرغے کي گھوں گھوں، گورے گورے ہاتھ پونياں تھامے اوپر ابھرتے ہيں، تکتے سے باريک  تار لپٹتا ہے تو ايسا لگتا ہے جيسے تار پوني سے نہيں نکلا ، گوري  کي ہتھيلي سے نکلا ہے، اور پھر عيد  کے دن ملنگ سائيں کا ميلہ، وہ اتري ڈھيروں پر پروا کے جھونکوں ميں لچکتي ہوئي گھاس ۔۔۔۔۔وہ گونجتے ہوئے دن اور چپ چاپ راتيں اور يہ نئي زندگي جينا اجيرن ہو رہا تھا، ہاتھ پائوں ہلائوں تو بے حيا اور لاڈلي ٹہروں، اجنبي عورتوں کا ہجوم کوئي کھانستي ہے، کوئي چھينکتي ہے، کوئي پڑوسن کا گلہ کرتي ہے، کوئي ميرے لونگ کے کناروں کو بھدا بتاتي ہے، نہ ساون کي رم جھم کے گيت، نہ الف ليلہ کي کہانياں، نہ ہم سنوں کي چہيلں، اس سےتو يہي اچھا تھا کہ ماں باپ مجھے کسي کگر سے دکھا دے ديتے، يہ سانسوں کي ڈوري ٹوٹ جاتي، چين آجاتا ، کيسے مذاق کرتي تھي مجھ سے نوري، تو بياہي جائے گي، دلہن بنے گي مہندي رچائے گي، دودھ پئے گي، چوري کھائے گي اور نوري کو اپنے من سے نکال دے گي۔۔۔۔۔بے چاري بھولي نوري۔۔۔۔۔نادان سہيلي۔۔۔۔تجھے کيا معلوم بياہ کي رونق صرف دکھاوا ہے، پھوڑے کي طرح۔۔۔۔۔اوپر سے گلابي اندر سے پيپ بھرا۔۔۔۔۔اف۔۔۔۔

گوري گھبرا کر اٹھي بيٹھي، چوڑياں بجيں تو ساس اندر دوڑي آئي اس کے بعد ايک عورت۔۔۔۔دوسري عورت۔۔۔۔پھر تسيري عورت۔۔۔۔۔اور وہي دم گھونٹ دينے والي حرکتيں اور باتيں، گوري نے چاہا نادان بچوں کي طرح مچل جائے بلک بلک کر رونےلگے، بھاگ کر باہر آنگن ميں لوٹنے لگے، زيور اتار پھينکے کپڑوں کي دھجياں اڑادے اور آنکھوں پر دھول بھرے ہاتھ مل مل کر سسکياں بھرے اور کہے، ميں تو سب سے تھک گئي ہوں، تم الف ليلہ والي ديونياں ہو، تماہري کھانس کي ٹھن ٹھن تمہارے قہقہوں کي کرختگي بہت ڈرائوني  بہت گھنائوني ہے، مجھے اکيلا چھوڑ دو ميں ناچنا اور گانا چاہتي ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔تب گوري کے دل ميں خيال آيا نہ ہوئي نوري اس وقت ورنہ يوں زور ست گلےلگاتي اسے کم بخت کي پسلياں پٹاخے چھوڑنے لگتيں۔

وہ خدا جانے اور کيا سوچتي مگر ساس اور نائن اور دوسري کم بختين پھر وہي گھس پٹي باتيں کرنيں لگيں، جہيز کي کيا پوچھتي ہو بہن، سارا گھر دے ڈالا گوري کو، ايسے ايسے کپڑے کہ ديکھے ميلے ہوں، وہ وہ زيور کہ آنکھيں چندھيا جائيں، پلنگ کے پانے نہيں ديکھے تم نے؟ نيچے سے شنگرافي اور اوپر سے اتنے  سفيد جيسے چاند اتر کر جڑ دئيے ہيں، اصل ميں ميرا بيٹا ہے ہي قسمت والا۔۔

اور نائن بولي کيا سجيلا گبرو ہے۔ آن نائي کہہ رہا ھے ميں کپڑے پہنانے دولہا کو گھر آئوں گا شانے پر ہاتھ پھيرا تو جيسے فولاد اور چہرے پر وہ نور کہ تارے بغليں جھانکيں۔۔۔۔ پر ميں  ابھي ابھي اسے ڈيوڑھي ميں کھڑے ديکھا، اس زکام کا برا ہو، پھول سا چہرہ يوں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔اور نائن نے اپني سفيد چادر کا پلو سب کے آگے پھيلا ديا۔

گوري کيلئے يہ موضوع بھي دلچسپي سے خالي تھا، نائين جھوٹ بولتي ہيں اکثر، پر وہ سجيلا ہے بھي تو کيا، حالت تو يہ ہے کہ چار پہر سے اس کے گھر ميں بيٹھي ہوں اور اس نے شکل تک نہيں دکھائي، وہيں ڈيوڑھي ميں پڑا چھينکتا ہے، بے ترس۔

بڑي دير کے بعد شام آئي، عورتيں چلي گئيں اور اس نے ہاتھ پائوں پھيلا کر بازو تانے، زيور سے لدے پھندے سر کو دھيرے سے جھٹکايا اور باہر ديکھا، اس کي ساس اور نائن سامنے کے کمرے سے باہر آتي تھيں اور اندر گھس جاتي مرجھائي ہوئي بانہوں ميں تانبے کے کنگن اور پتيل کي چوڑياں جيسے کھانس رہي تھي، جوتياں چپڑ چپڑ چيخ رہي تھيں اور وہ کل دار گڑيوں کي طرح مٹکتي پھر رہي تھيں۔

کچھ دير بعد گائوں والياں گيت گانے اور سننے آئيں تو ان کے ہمراہ نوري بھي آئي گوري کے قريب بيٹھ گئي اور اس کے کان ميں بولي آج تو بات تک نہيں کرتي بہن، اور پھر آنکھيں مٹکا کر گنگننے لگي۔

دلہن کا بولنا گناہ ہے اور پھر گوري تو ان اللہ واليوں کو ذکر بھي سن چکي تھي جنہوں نے ايک ايک ماہ چپ شاہ کا روزہ رکھا، اس لئے اس نے بولنا مناسب نہ سمجھا بس دھيرے سے نوري کے پہلو میں کہني جڑدي، اور نوري تڑپ کر بولي، لے کے کيلجہ ہلا ديا ميرا، کيوں نہ ہو، بياہ جو ہوگيا تيرا، ہو لينے دے ہمارا بياہ، تيرے گھر کے پاس سے گزريں گے تو ناک بھوں چڑھا کر آگے بڑھ جائيں گے غرور سے پلٹ کر ديکھيں گے بھي نہيں ، کر لے مان گھڑي کي بات ہے۔

گوري کي زبان ميں سوئياں سي چبھ گئيں، جب تک گيت گائے جاتے رہے وہ نوري کو اور نوري کے نقرئي بندوں کو ديکھتي رہي اور سوچتي رہي کہ ، کنوارے پنے کے ساتھي، بندے کيسے بھلے لگتے ہيں گلابي کانوں ميئں، اور ايک ميرے کان ہيں کہ کيڑوں ايسي پتلي پتلي باليوں سے پٹے پڑے ہيں، نوري سر ہلاتي ہے تو يہ بندے تاروں کي طرح ٹمٹاتے ہيں اور جب پلٹ کر ادھر ادھر ديکھتي ہے تو بندے انگوروں کا گچھا بن جاتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔سوچتے سوچتے اس کا ماتھا دھوپ ميں پڑي ہوئي ٹھيکري کي مانند تب گيا اور جب سب ناچنے لگيں اور نوري نے ڈھولک کے ارد گرد گھوم کر ايک گايا۔۔۔

جاري سہيلي اب جا۔۔۔۔تو ہے پيا بلاوے۔

چاندي کي جھيلوں کے پار رے

سونے کے ٹیلوں کے پار رے

جاري سہيلي اب جا۔۔۔۔تو ہے پيا بلاوے

تو گوري نے ديوار سے سر ٹيک کر روکنا چاہا کہ ذرا جي ھلکا ہو جائے تو مگر آج تو آنکھوں ميں ہر چيز کي جگہ کاجل نے لے لي تھي، نہ نيند نہ آنسو بس کاجل ہي کاجل اچھا بياہ ہوا۔۔۔يہ بھي خوب رہي۔

جب سب چلي گئيں اور آنگن سونا ہوگيا تو دولہا کا باپ کھانستا ہوا آيا اور ايک طرف سے حقہ اٹھا کر چلتا بنا، نائن ہاتھ ملتي اٹھي اور بولي، آ ميري بچي ادھر پلنگ پر آجا، نيند آرہي ہوگي تجھے اور پھر گوري کي بغلوں ميں ہاتھ ڈال کر نائن نے اسے يوں کھينچا جيسے لاش کو اٹھا رہي ہے، گوري پائوں گھسٹي کمرے ميں آئي، رنگين پائے والے پلنگ پر دھم سے گري اور چھم سے ليٹ گئي، نائن بولي بيٹي زيور تو اتار لے، نتھ وتھ کہيں اٹک گئي تو مشکل بنے گي۔۔۔۔۔۔نہيں اٹکتي گوري بولي۔۔۔ميں خود اتار لوں گي۔۔

نائن نے آگے بڑھ کر پھر اس کي بغلوں ميں دونوں ہاتھ جما دئيے، نہيں نہيں بيٹي يہ برا شگون ہے، زيور اتارنے ہي پڑتے ہيں، ايک بار ايک دلہن نے تيري  طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ليکن نائن اپني کہاني شروع کرنے ہي پائي تھي کہ گوري زيور نوچنے لگي اور پھر فورا  دھڑام سے پلنگ پر گر گئي، ٹين کے ڈبے ميں کنکر بج اٹھے نائن بولي يہ بھي خوب رہي نائن چلي گئي اور گوري دانت پيس کر رہ گئي۔

جيسے بہت سے تاگے آپس ميں الجھ جائيں تو انہيں سلجھانے کي کوشس اور الجھنيں پيدا کرديتي ہے بالکل يہي کيفيت تھي گوري کے ذہن کی، بياہ کا پہلا دن بس بن کر اس کے سينے پر سوار تھا، کہ اچانک چرغ سے دروازہ کھلا گوري چونک گئي، ارے۔

ميں سمجھتي تھي نائن جھوٹ بکتي ہے، اس نے گھونگھٹ کي شکنوں ميں سے کنکھيوں سے نودار کو ديکھتے ہوئے سوچا، يہ ميرا دولہا ہے يا لال بادشاہ۔

بھونچال سا آ گيا اس کي طبعيت ميں، چيختي ہوئي آندھيوں، کڑکتے ہوئے بادلوں ، لڑھکتي ہوئي چٹانوں اور ٹوٹے ہوئے ٹہنوں ميں لپٹا ہوا ذہن يہاں سے وہاں اچھلنے لگا سنبھل کر بيٹھنا چاہا تو پلنگ کے پائے تک کھسک گئے۔

دولھا مسکراتا رہا اور پھر پلنگ پر بيٹھ کر بولا اگر تم کچھ اور پرے کھسکتيں تو پلنگ سے گر جاتي۔

گوري خاموش رہي۔

دولھا نے اس کا ہاتھ پکڑ ليا اور بولا، سنا کچھ۔

اور يکايک آندھياں تھم گئيں اور بادلوں نے چپ سادھ لي، گوري کے جسم ميں جھرجھري سي دوڑ گئي، ذہن يوں صاف ہوگيا جيسے اس نے کڑکتي دھوپ ميں ليموں کا يخ شربت  غٹ غٹ چڑھا ليا ہو، انگڑائي آئی تو با نہيں نہ تان سکي، بس اندر ہي چٹخ پٹخ کر رہ گئي اور پھر ہاتھ چھڑا کر ذرا پرے کھسکنے کي کوشش کرنے لگي۔

پلنگ سے گر جائو گي گوري۔ دولہا بولا۔

آپ کي بلا سے۔گوري نے جيسے اپنے ذہن کا سارا بوجھ اتار کر پرے جھٹک ديا۔

اگر تم گرگئيں تو تکليف مجھے ہوگي دولہا بولا۔

گوري شرما گئي اور بےتعلق سا سوال کر بيٹھي، زکام کا کيا حال ہے۔

سرک گيا ہے اس وقت، دولھا مسکرايا اور پھر خاموشي کے ايک طويل وقفے ميں گوري کي اٹھتي اور گرتي ہوئي نظروں سے بہت سي باتيں کرليں اور جب آنگن کے پرلے سرے پر اپنے ڈربے ميں ايک مرغي ککرائي تو دولھا نے کہا کوئي بات کرو گوري۔

تم ہي کوئي بات کرو، گوري پہلي مرتبہ مسکرادي۔

کيا بات کروں؟

کوئي کہاني وہاني سنائو، گوري جيسے اپنےآپ سے باتيں کرہي ہو۔

کہاني ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کيي کہاني؟دولھا نے پوچھا۔

کوئي پريوں وريوں کي کہاني، گوري کھل کر بولنے کے باوجود سمٹی جا رہي تھي،۔

مجھے تو صرف لال بادشاہ اور سبز پري کي کہاني آتي ہے، دولھا مسکرايا۔

وہي سہي، گوري نے انگلي ميں سنہري انگوٹھي کو گھماتے ہوئے کہا۔

دولھا نے تکئے پر کہني ٹیک دي۔ تو پھر سنو، پر ذرا قريب ہوکر سننا۔۔۔۔۔۔يوں۔۔۔۔جہاں زمين ختم  ہوجاتي ہے نا وہں ايک نگري ہے، جسے لوگ نيند کي نگري کہتے ہيں، اس نگري پر ايک بادشاہ راج کيا کرتا تھا، اسکا نام تھا لال بادشاہ بڑا خوبصورت، بڑا ہنس مکھ بہت بانکا، بہت سجيلا۔

تمہاري طرح، گوري کا بستر کي چادر پر انگلي پھرتے ہوئے يوں بولي جيسے کانسي کےکٹورے سے چھلا مس کر گيا ہو۔

دولھا ہنس ديا اور گوري کي لال لال  پوروں کو اپني دودھ ايسي پوروں سے ٹٹول کر بولا تو کرنا خدا کيا ہوا گوري کہ ايک دن لال بادشاہ شکار کھيلنے ايک جنگل ميں جانکلا اور۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھي کہاني نصف تک پہنچي تھي، ابھي لال بادشاہ نے سبز پري کا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ہي ليا تھا کہ دروازے کي جھريوں سے صبح کاذب جھانکي، دولھا چونک کر بولا، ارے صبح ہوگئي۔

نہيں شام ہوگي، گوري نہ بھولے سے کہا۔

اچھل کر دولھا نے دروازہ کھولا پلٹ کر مسکرايا اور باہر نکل گيا اور گوري نے اتني لمبي انگڑائي لي جيسے پورب سے انگڑائي ليتي ہوئي صبح کا منہ نوچ لے گي، تکئيے ميں سرجما کر کہنے لگي ہائے رے نوري بہن تو کتني ابھاگن ہے، پڑي ہوگي ٹوٹے کھٹولے پر گھگھڑي بن کر۔۔۔۔۔۔اور يہاں تيري گوري شنگرفي پايوں والے پلنگ پر۔۔۔۔۔مہندي کي خوشبو سے بسے ہوئے کمرے ميں ۔۔۔۔۔اپنے بانکے سجيلے دولھا سے۔۔۔۔۔اف، کتني سچي باتيں کہتي تھي تو؟

اس نے مسکرا کر دئيے کي پيلي روشني ميں اپني لال ہتھيلياں ديکھيں اور اپنے تپے ہوئے چہرے پر ہاتھ مل کر بولي، کاش اس وقت يہاں نوري ہوتي ۔۔۔۔۔۔يا کوئي آئينہ ہي ہوتا؟

                                                                                      

                                                                                                   احمد نديم قاسمي

متعلقہ تحريريں:

 افسانہ

 ناول کيا ھے؟