• صارفین کی تعداد :
  • 2925
  • 6/30/2008
  • تاريخ :

 مالکی اور مقتدٰی الصدر کے درمیان صلح امریکی اہداف کی ناکامی

عراق کا جهنڈا

 

عراق میں حکومت اور حکومت مخالف شیعہ گروہوں کے درمیان صلح آمیز ماحول بننا اور امن قائم ہو جانا اور جیش المہدی کے خلاف امریکا کی کوئی واضح کامیابی حاصل نہ کرسکنا یقینا عراق میں ایک اور امریکی ناکامی ہے۔ اس مرحلے میں امریکا کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ ایران پر عراق میں مداخلت اور مقتدٰٰی الصدر کی جیش المہدی کی حمایت کا الزام لگائے۔

 

اس مرحلے میں یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جیش المہدی عراق میں پاپولر عوامی مزاحمت کی حیثیت حاصل کرتی جا رہی ہے۔ اگرچہ جیش المہدی کے بعض یونٹوں میں بعثی اثرو رسوخ رکھنے والے افراد  اور جرائم  پیشہ عناصر کی موجودگی نے جیشن المہدی کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے جس کو جیش المہدی کی قیادت نے کافی سنجیدگی سے لیا اور اِن عناصر سے جیش المہدی کو صاف کرنے کی کوششوں کا آغاز بھی کیا۔

بصرہ میں جرائم پیش عناصر کے خلاف کاروائی کے نام پر حکومتی فورسزز کی جیش المہدی اور بعض مقامی مزاحمتی تنظیمیں جیسے ثار اللہ وغیرہ کے خلاف بری طرح ناکامی کے بعد مالکی حکومت کو ذرا مختلف انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ صرف امریکا ہی خطے کی واحد طاقت نہیں بلکہ ایران بھی خطے میں انتہائی اہم حثیت رکھتا ہے۔ بصرے میں ناکامی کے بعد صدر سٹی میں امریکی فورسزز کی کاروائیوں میں اب تک تقریبا ایک ہزار مرد و خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پڑھے ہوئے ہیں۔ امریکی ٹینکوں اور توپوں کا نشانہ زیادہ تر سویلین افراد ہی بنے۔

 

مالکی حکومت نے عراق کی صورت حال کے متعلق ایک پانچ رکنی مذاکراتی ٹیم تہران بھیجی جس میں مالکی حکومت کے سیکورٹی امور کے ماہرین سمیت مجلس اعلاے اسلامی عبدالعزیز الحکیم کے نمائندے اور بدر فورس کے سربراہ بھی شامل تھے۔ جنہوں نے ایران میں اس بات کا اعلان کیا کہ عراق میں ایران مداخلت نہیں کر رہا۔

 

ظاہرا اس دورے کا مقصد ایرانی افیشلز کے ساتھ عراقی سیکورٹی امور پر مذاکرات کرنا تھا۔ لیکن بعض اخبارات نے یہ بھی کہا کہ چونکہ مقتدٰی الصدر خفیہ طور پر ایران میں مقیم ہیں لہذا اصل مذاکرات مقتدٰی الصدر کے ساتھ ہونے ہیں جس میں ایران ثالثی کے فرائض انجام دے گا۔ جبکہ پانچ رکنی ٹیم آخر تک اس بات سے انکار کرتی رہی۔ کامیاب مذاکرات کے بعد پانچ رکنی ٹیم واپس چلی گئی جس کے اثرات مالکی حکومت کی پالیسیز پر واضح نظر آ رہے ہیں۔ مالکی حکومت کی مقتدی الصدر کے خلاف بڑھتی ہوئی خلیج بہت کم ہوئی ہے اور نوری المالکی کے جیش المہدی کے خلاف تندو تیز بیانات میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ ابھی جیش المہدی کے خلاف مورچے میں امریکا تنہا رہ گیا ہے۔ یقینا شیعہ پارٹیز کو عراق میں لڑانے کے امریکی سازش بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ جس کا واضح کریڈٹ ایران کو جاتا ہے۔


متعلقہ تحریریں: 

  پاکستان میں نئی امریکی سفارت کاری ۔ ایک خطرناک کھیل