• صارفین کی تعداد :
  • 2590
  • 7/13/2008
  • تاريخ :

حزب اللہ اپنی قوت کو بچائے

حزب اللہ

نپو لین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ اتحاد و اتفاق جنگ کے مہلک ترین ہتھیار ہیں.

آقائے دو جہاں حضرت محمد (ص) نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی مثال اس عمارت جیسی ہے جس کے اجزا ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں
صہیونی طاقتیں مشرق وسطی کے معدنی وسائل کو ہڑپ کرنے.مائکل ہنگٹنٹن کے نظرئیے clash of civilization کو زندہ جاوید حقیقت کا روپ دینے اور اسرائیل کو خطے کا تھانیدار بنانے کے لئے ہر اس ملک ، شخص اور تنظیم کو ملیا میٹ کرنے کے لئے گردان نظر آتی ہیں جو کسی بھی صورت میں صلیبی مفادات کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرے ۔ امریکہ اور اسرائیل ایک طرف جہاں ایران پر جو ہری پروگرام کے لا یعنی الزامات کی شوشہ آرائی کرکے جنگ مسلط کرنے کا ظالمانہ خواب دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف اسرائیلی حکام سی آئی اے کی سپورٹ سے اپنی حریف عسکری قوت حزب اللہ کی ناقابل تسخیر طاقت کو ختم کرنے کے لئے لبنان میں خانہ جنگی کو مہمیز دینے کی فتنہ گریوں میں غلطاں ہیں ۔ کیونکہ اسرائیلی فورسز ماضی قریب میں حزب اللہ کے سرفروشوں کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ذلت ناک شکست کے زخم ابھی تک چاٹ رہی ہیں ۔ ویسے بھی حزب اللہ صہیونی قو توں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹا بن کر چبھتی ہے اور ایک سچ تو یہ بھی ہے کہ امریکی اور صلیبی پالیسی ساز ہر دور میں حزب کو تختہ مشق بنانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں. لبنان مختلف قومیتوں کا گھر ہے. جہاں مسلمان  اور عیسائی صدیوں سے  اکٹھے رہ رہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کی طاقتور عسکری قوت ہے. حزب اللہ کی کمر توڑ نے کے لئے صہیونی بازیگر ہر دور میں لبنان میں خانہ جنگی  اور نسلی فسادات کو انگیخت دیتے رہے ہیں .

صہیونیوں اور یہودی جادوگروں کی تاریخ کا عمیق نظروں سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ سچائی آموختہ ہوتی ہے کہ صہیونی جس قوم کو جھکانے میں ناکام رہے انہوں نے عیاریوں اور مکاریوں سے اس قوم کی رگوں میں تفرقہ بندی اور فرقہ واریت کا زہر اتار کر اپنے مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا. اسی سال سات مئی کو لبنان کے در و دیوار نے ایک دفعہ پھر خون کی ند یاں بہتے دیکھیں. لبنان کے امریکن نواز حکومتی ٹولے نے اغیار کے اشاروں پر حزب اللہ اور عیسائی تنظیموں کے درمیان خانہ جنگی کا میدان کارزار بپا کروا دیا . لبنان میں برپا ہونے والے دل دوز مناظر نے عقل و شعور کے پردوں پر1985 ع میں بیروت میں ہونے والی خانہ جنگی کی دلخراش فلم چلا دی ۔ لبنان کی قسمت میں ہمیشہ خون کی بارش کے ہولناک تحائف الم نشرح ہیں ۔ 1985 ع میں شروع ہونے والی ہیبت ناک افراتفری 1988 ع تک جاری رہی. اس جنگ میں لاکھوں لبنانی تہ خاک اور اتنے ہی بے سائبان بن گئے. شام اور امریکہ کی کوششوں سے اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا. اور اس وقت سے لبنان دو حصوں میں بٹ چکا ہے.حزب اللہ شام اور ایران کے تعاون اور جذبہ جہاد کو سینے کا نور مان کر خطے میں موثر قوت کا روپ دھار چکی ہے. جو مڈل ایسٹ کی بدمعاش جوہری طاقت اسرائیل کے دانت کٹھے کرنے کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہے .

 دوسال قبل جب بش سرکار نے عراق کے بعد ایران پر بارود برسانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت یہ طے پایا کہ تہران پر چڑھائی سے پہلے حزب کو تہہ خاک کیا جائے.اس مقصد کے لئے اسرائیل نے پورے مغرب کی مالی اور فوجی امداد سے حزب اللہ کو کرش کرنے کے لئے لبنان پرحملہ کردیا لیکن پوری دنیا نے جنون و عزم اور جہادی قوت کا ایک اظہر من التمش نظارہ دیکھا کہ حزب کے تین ہزار گوریلوں نے دنیا کی واحد سپرپاورکے بغل بچے اسرائیل کے بھیڑیوں کوناکوں چنے چبوا دئیے. صہیونیوں نے اس ذلت آمیز ہزیمت کا بدلہ یوںلیا کہ انہوں نے حال ہی میں زہریلی منصوبہ بندیوں سے بیروت میں حزب اور حکومتی فورسز کے درمیان خانہ جنگی کے شعلے بڑھکا دئیے.معروف عربی دانشور عبدالغفارنے اپنے کالم ( لبنانی فسادات اور خطے کا مستقبل) میں بیروت کے حالیہ کشت و خون کو حکومت کے دو فیصلوں سے جوڑا ہے.وہ لکھتے ہیں.کہ حکومت نے لبنان میں ایرپورٹس کے سیکیورٹی سربراہ جس کا تعلق حزب سے ہے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی.جس کا حزب کے بڑوں کو قلق ہوا.امریکن نواز لبنانی حکومت نے الزام عائد کیا کہ ایرپورٹ سیکیورٹی چیف خفیہ کیمروں کے ذریعے حزب کے لئے جاسوسی کرتا ہے.دوسرے فیصلے میں سرکار نے حزب کے مواصلاتی نظام کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا.حکومت لبنان نے الزام عائد کیا کہ حزب شام اور ایران کی مدد سے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنا چاہتی ہے.

دوسری طرف حزب اللہ کے ترجمان نے حکومتی ایجنسیوں کی الزامات طرازی  کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے بیروت میں ہمارے  پر امن جلوس میں گڑ بڑ  کروائی. حزب اللہ  نے حکومت کے دونوں  بے ہودہ اور طفلانہ فیصلوں کو پائے حقارت سے مسترد کر دیا . سات مئی کو بیروت کی سڑکوں پر ہونے والے آگ و خون کے کھیل کے بعد قطر کے دارلخلافہ دوحہ میں 22 مئی کو فریقین کے درمیان  مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پا گیا لیکن الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق حالات بدستور کشیدہ ہیں. کیونکہ لبنان کی امریکن نواز حکومت اسرائیل و امریکہ کی جنبش آبرو پر حزب کو ختم کرنے  پر تلی ہوئی ہے. دوسری طرف مڈل ایسٹ کے معاملات پر عبور رکھنے کے حوالے سے عالمگیر شہرت رکھنے والے مغربی دانشور رابرٹ فسک نے لکھا ہے . کہ حالیہ فساد امریکہ و اسرائیل کی ریشہ دوانیوں میں پنہاں ہیں . وہ لکھتے ہیں. کہ امریکہ دنیا کو باور کروانا چاہتا ہے . کہ ایران حزب اللہ کی مدد سے خطے میں اسلامی انقلاب بر پا کرنے کے لئے بے چین ہے. اس الزام کے تناظر میں امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کا پرتول رہا  ہے . رابرٹ فسک نے صہیونیوں کو  وارننگ دینے کے انداز میں لکھا ہے . کہ اسرائیل اور امریکہ چاہے جتنا زور لگا لیں لبنان اور حزب کے معاملہ میں انہیں خفت اٹھانی پڑے گی. بش اپنی صدارت کے خاتمے سے قبل ہی ایران کو سبق سکھانے کے لئے مضطرب ہیں .  تا کہ دہشت گردی کے نام شروع کردہ جنگ میں رسوائی و  پسپائی کے جو داغ امریکیوں کو نا ئن الیون  کے سانحات کے بعد اٹھانے پڑے ہیں انہیں ایران پر چاند ماری کر کے دھو یا جائے . شرق الوسط نامی اخبار نے امریکہ کی ایران پر حملہ کرنے کی تیاریوں کو طشت از بام کرتے ہوئے لکھا ہے . کہ صرف مئی کے مہینے میں انیس امریکن جنگی جہازوں نے نہر سو یز کو عبور کیا ہے .

نہر سویز کی تاریخ میں اس سے  پہلے  اتنے جہازوں  کو کبھی ادھر سے گزرتے ہوئے  نہیں دیکھا گیا . لیکن سچ تو  یہ ہے کہ امریکہ ایران کو  پچھاڑنے کا تصور  بھی نہیں کر سکتا .

 نپولین نے درست کہا تھا کہ اتحاد و اتفاق جنگوں میں مہلک  اسلحے کا کام کرتے ہیں.

ایرانی قوم ذاتی و مذہبی نظریات کو  بالا ئے طاق رکھ کر امریکہ و اسرائیل کے خلاف یک جان ہو چکی ہے ۔  یہ ایران کی اندرونی یک جہتی نے صہیونیوں کو شب خون مارنے سے روک رکھا ہے . اگر امریکہ نے عراق و افغانستان میں درگت بننے سے سبق حاصل نہ کرتے ہوئے ایران پر چڑھ دوڑنے کی حماقت کی تو اس کی رہی سہی کسر بھی خاک میں مل جائے گی ۔ جارح قوتیں چاہے کتنی طاقتور کیوں نہ ہوں انہیں ایک روز ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے . اور  یہ تاریخ  کا دستور ہے . اور  تاریخ کے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوا کرتے . سچ  تو  یہ ہے کہ صہیونی مسخرے  ہر قیمت پر تہذیبوں کے تصادم کے بودے اور انوکھے نعرے کو عملی شکل کا روپ دینے کے لئے مسلم امہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہیں. وائٹ ہاؤس کے مہاراج سرمایہ دارانہ نظام کو امریکہ کی بقا و سلامتی کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے پٹھو ہر صورت میں ایران و خلیجی ریا ستوں کو اپنا باج گزار بنانے کے لئے سرگرداں ہیں. ایران اور حزب اللہ سرمایہ داروں اور صہیونی فسادیوں کے سینے پر سانپ کی طرح دوڑتے ہیں. لیکن حیرت تو  یہ ہے کہ جو امریکہ مسلم دنیا کو نکل جانے کے درپے ہے . ہمارے(مسلم) بادشاہ . حکمران اور ڈکٹیٹر وائٹ ہاوس کی ٨ خوشنودی کے لئے امریکن صدر و دیگر احباب حکومت کے ساتھ ہر دور میں پیار کی پینگیں بڑھانے کے لئے بے تاب رہتے ہیں.

ایران کے سوا مسلم ریاستوں کے حکمران امریکہ کو اپنا آقا و ملجی بنا چکے ہیں . مسلم حکمرانوں کو خواب غفلت سے باہر نکل کر قبلہ اول کی بازیابی اور اسرائیل و امریکہ کے ایران پر حملہ کرنے کے ابلیسی منصوبے کو تخت و تاراج کرنے کے لئے اتحاد و اتفاق کی رسی کو تھام لینا ہوگا. صدر بش نے اپنے دورہ اسرائیل میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں اپنے شعلہ بار خطاب میں بیانگ دہل صہیونیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے جگالی کی تھی کہ یہودی اپنے آپ کو  صرف سات ملین نہ سمجھیں . ہم (امریکہ) اور آپ (اسرائیل) مل کر 307 ملین بنتے ہیں. ہم دونوں مل کر اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف شانہ بشانہ جنگ کریں گے.لیکن بدقسمتی تو یہ ہے. کہ مسلم حکمران امریکہ کے جھوٹے ناخداوں  کی جھوٹی رضا کے لئے سگ لیلی کی بلائیں لینے کو اپنے ایمان کا جزو لاینفک سمجھتے ہیں . جو ان کی حماقت اور نادانی ہے . پتہ نہیں یہ کو تاہ  بین مسلم حکمران کب تک امریکہ کے تلوے چاٹتے رہیں گے. کب تک امریکہ کے سامنے سرنگوں ہو کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے.احمقوں کے اس گروہ کو مسلم امہ کی تابناک نشاط ثانیہ کی بحالی .اور خدائی احکامات کی پیروکاری . ماضی کے اوراق میں در گور خودی اور خود مختیاری کی بازیابی . اور مسلم خطوں پر مسلط امریکہ مظالم کے خلاف شہسواری کے لئے

حضرت محمد -ص-  کے قول مبارک (مسلمانوں کی شکل اس عمارت جیسی ہے.جسکے تمام اجزا ایک دوسرے کے ساتھ جڑت رکھتے ہیں)

 کی روشنی میں با ہم شیر و شکر ہو جانا چاہیے . کیو نکہ اسی میں ہماری  فلاح اور حمیت کا راز اور خوشنودی رحمن کا راز پنہاں  ہے . حزب اللہ  ایران تک امریکی اور اسرائیلی رسائی کے درمیان ایک مضبوط جنگی قلعے کا روپ رکھتی ہے . اس کی مضبوطی مسلم امہ کے دفاع کے لئے لازم و ملزوم ہے . یوں اور  آئی سی  کا فرض ہے . کہ وہ  ایران کے ساتھ مذ ہبی تفاوت کو بالائے طاق رکھ کر حزب اللہ کی سلامتی کے لئے بھر پور کردار ادا کرے . اگر اسرائیل کے خلاف ہمالیہ کے ناقابل عبور پہاڑوں کا کردار ادا کرنے والی حزب کو امریکن رزیلوں اور صہیونی شکاریوں کی سیاہ کاریوں اور سازشوں سے کمزور کردیا جاتا ہے . تو پھر ایران اور پاکستان کو امریکی یلغار سے بچانا ناممکنات میں شامل ہوگا . دوسری طرف پوری مسلم امہ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ڈیڑھ ارب مسلمان حزب کے سرخیلوں اور شاہینوں سے درخواست کرتے ہیں. کہ وہ خانہ جنگی اور باہمی تفرقہ بندیوں سے اپنے آپ کو بچائیں . تا کہ امریکی و یہودی تیرہ بخت ان کے مضبوط قلعے میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہیں . دہشت گردی کے نام شروع کردہ امریکی جنگ  کی حقیقت کو امریکہ کی ہی دانشور انتو نیا جو باز کی کتاب bush agenda میں لکھتی ہیں.  بش کا  نظریہ یہ ہے کہ امریکہ کے خوشحال مستقبل کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کی بقا لازمی ہے. امریکہ کی انتہا پسندی کے خلاف نام نہاد جنگ کا رپوریٹ عالمگیر یت کی حکمرانی ہے۔

                                                                  تحریر:ر‏ؤف عامر( القمر آن لائن)