• صارفین کی تعداد :
  • 3167
  • 7/27/2008
  • تاريخ :

حضرت آیت اللہ سید علي خامنہ اي کی نوجوانوں کے لۓ رہنمائی

حضرت آیت اللہ سید علي خامنہ اي

دين اور جوان

 معاشرہ کا نوجوان طبقہ ، اس طرف مائل ہے کہ اس کے لئے مذہبي مسائل و مفاہيم کو بيان اور واضح کيا جائے۔ يہ طبقہ دين کو استدلال ، منطق، معرفت اور وسعت نظري کے ذريعہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔یہ ايک خوش ئند بات ہے ، ايک مناسب اور صحيح مطالبہ ہے اور ايسا مطالبہ کہ جسے خود دين نے ہم کو سکھايا ہے۔ قرآن کريم ہم سے يہي تو فرماتا ہے کہ تفکر ،تعمق اور فہم و ادراک کے ساتھ معارف اسلامي کو سمجھيں اور قبول کريں۔ وہ افراد جو عہدیدار ہيں، اگر اس وسعت نظري کو اس طبقہ ميں مزيد رائج کريں تو ملاحظہ کريں گے کہ يہ نسل مکمل طور پر باعمل اور ديندار ہے۔

دنيا کے بہترين نوجوان

 دوسري جانب بعض ايسے افراد جو شايد دين و مذہب سے بہت زيادہ خوش و راضي نہيں ہيں، اپنے احساسات اور جوانوں ميں دين سے روگرداني کو اسي جوان طبقہ سے منسوب کرتے ہيں۔ اس سلسلے ميں ان کا دعويٰ يہ ہوتا ہے کہ جوان طبقہ دين و مذہب کا طالب نہيں ہے۔ ان افراد ميں بھي ايسے ہوتے ہيں کہ جن کے اس دعويٰ ميں افسوس بھي شامل ہوتا ہے جبکہ بات کو جانبداري کے ساتھ بيان کرتے ہيں۔ ان کے بقول آج کے نوجوان کي خواہش ہي يہي ہے کہ وہ دين و مذہب کي پابنديوں اور چار ديواريوں سےآزاد ہو جائے۔ يہ دونوں دعوے اور اقوال سرے سے بے بنيا د ہيں البتہ يہ صحيح ہے کہ نوجوانوں کے درميان مختلف افکار ، نظريات ، احساسات اور عادات و اطوار پائے جاتے ہيں ۔ ليکن وہ حقيقت جو قابل ترديد نہيں ہے يہ ہے کہ ہمارے  نوجوانوں کا شمار دنیا کے بہترين جوانوں ميں ہوتا ہے۔

جوانوں کے مسائل

 منصوبہ ساز حضرات کو چاہئے کہ جوانوں کے مسائل کي جانب توجہ ديں ۔ ميں ان مسائل کو مختصرا بيان کررہا ہوں۔ درحقيقت ميں ان لوگوں سے مخاطب ہوں جو نوجوان طبقے کے ارتقاء کے لئے منصوبہ بندي کرتے ہيں۔ البتہ اپنے اس خطاب کے دوران ميں آپ(جوان حضرات) کے لئے يہ بھي واضح کرنا چاہوں گا کہ ان مسائل ميں سے کن مسائل پر اعتماد وتکيہ کيا جا سکتا ہے اورکس طرح ان مسائل کے ذريعے راہ سعادت حاصل کي جا سکتي ہے۔

مسائل و مشکلات 

يہ مسائل دو طرح کے ہيں، ان ميں سے بعض مسائل و مشکلات کا تعلق نوجوانوںکي ذاتي زندگي سے ہوتاہے اور يہ تعلق اس طرح کا ہے کہ جس کو ان سے جدا بھي نہيں کيا جاسکتا ۔ ايک نوجوان زندگي کے پہلے مرحلہ ميں تحصيل علم، کسب معاش اورمستقبل وغيرہ کے بارے ميں فکر مند رہتا ہے۔ اس کا مستقبل کيسا رہے گا، کس طرح گذرے گا؟ وغيرہ وغيرہ۔ روشن مستقبل کا ہونا اس کے لئے نہايت اہم ہوتا ہے۔اس کے لئے بہترين ازدواجي زندگي اہميت کي حامل ہوتي ہے، اپني استطاعت کے مطابق وہ علم کے اعليٰ مدارج حاصل کرنا چاہتا ہے، خوشياں ،سودگياں اس کو اپني طرف مائل کرتي ہيں۔ جمالياتي حسن ايک نوجوان کے اندر بقيہ اوصاف کے مقابل زيادہ قوي ہوتي ہے اور اس کے اندر جذبات و احساسات کا مادہ زيادہ پايا جاتا ہے۔ يہ ايسے مسائل و امور ہيں جو فقط نوجوانوں کي ذاتي زندگي سے مربوط  ہو تے ہيں۔

اجتماعي اور سماجي مسائل

 نوجوانوں کے مسائل و امور فقط مندرجہ بالا امور ہي تک محدود نہيں رہتے ہيں بلکہ ايک نوجوان اپني ذاتي زندگي سے باہر نکل کر سماجي زندگي سے بھي تعلق رکھتا ہے۔ اگر وہ معاشرے يعني اسکول،کالج اور گھر وغيرہ میں برتري، جانبداري اورشخصيت پرستي کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسکو نہايت تکليف پہنچتي ہے۔ معاشرے ميں ايسے افراد بھي پائے جاتے ہين جو ان سماجي اور معاشرتي مسائل کے حوالے سے قطعاً بے حس ہوتے ہيں يا اپني گھريلو زندگي ہي ميں مشغول رہتے ہيں يا پھر ان مسائل ميں اس حد تک الجھے رہتے ہيں کہ ان مسائل کے عادي ہو جاتے ہيں ليکن ايک نوجوان کا مزاج ان افراد سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے اندر اميديں ،جوش اور ولولہ پايا جاتا ہے۔ اگر عدالت ميں اس کو عدل و انصاف کي جگہ ظلم نظر آتا ہے تو وہ رنجيدہ ہوجاتا ہے۔ اگر اس کو معاشرے ميں تخريب کارياں نظرآتي ہيں تو اس کا دل کڑھتا ہے کيونکہ اس کي نگاہ ميں ملک کي عزت و مقام اہمیت کا حامل ہوتي ہے۔ اگر کہيں انقلاب اور حب الوطني وغيرہ نظرئے تو سمجھ لينا چاہئے کہ نوجوان وہاں يقينا موجود ہے۔

نوجوانوں کا يہ مزاج کسي ايک معاشرے ہي ميں نہيں پايا جاتا ہے بلکہ تمام معاشرے اسي طرح کے ہوتے ہيں۔ بس فرق اتنا ہے کہ ايسا معاشرہ جن ميں ايمان اورمعنوي بنیادیں زيادہ مضبوط ہوتي ہيں، يہ کيفيات زيادہ پائي جاتي ہيں۔ جہاں بھي ملک و ملت پر حرف آتا ہے نوجوان رضا کارانہ طورپر خود بخود آگے بڑھتے ہيں اور خود کوملک ،قوم و ملت کے حوالے کرديتے ہيں۔ يہ بھي نہيں سوچتے کہ ان کي ذاتي زندگي کي سودگيوں اور خوشيوں کا کيا ہوگا؟ وہ( بے خطر کود پڑا آتش نمرود ميں عشق ۔۔۔کا مصداق بنکر۔مترجم )خطرات ميں کود پڑتے ہيں۔ اور اس کي جانب ہمارے منصوبہ ساز افراد کو توجہ کرني چاہئے۔

روح معنویت

يہ بھي مشاہدہ کيا گيا ہے کہ عام طور پرنوجوانوں ميں ايک روح عرفاني ومذہبي پائي جاتي ہے۔ نوجوان يہ چاہتے ہيں کہ خدا اور حقيقت سے قريب ہوں۔ يہي وجہ ہے کہ مذہبي تقاريب ميں ان کي شرکت کثير تعداد ميں ہوتي ہے۔ جہاں کہيں بھي مذہب ترو تازہ اور پررونق نظر تا ہے،نوجوان طبقہ وہاں پہنچ جاتا ہے چنانچہ اسي بنا پر دنيا ميںجہاں جہاں مذہب فرسودہ اور بے روح ہوتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ نوجوان طبقہ دین سے دور اور بے اعتنا ہے۔ تاريخ ميں ہميشہ ايسا ہي ہوتا آيا ہے ،يہ فقط دور حاضر کا خاصہ نہيں ہے ۔ مذہب اگر زندہ اور ترو تازہ ہے تو نوجوانوں سے قريب ہے اور اگر بے جان و فرسودہ ہے تو نوجوان طبقہ اس سے بيزار ہے ۔


متعلقہ تحریریں:

 چراغ صراط