• صارفین کی تعداد :
  • 4396
  • 7/28/2008
  • تاريخ :

جلتا ہوا مغربي معاشرہ

مسلمان عورت

   اس قسم کے افراط کے مقابلے ميں تفريط بھي موجود ہے ۔ جب اُس گھٹن کے ماحول ميں خواتين کے حق ميں اس قسم کي (ظاہراً ) پُرسود تحريک شروع ہوتي ہے تو ظاہري سي بات ہے کہ دوسري طرف سے خواتين تفريط کا شکار ہوتي ہیں ۔ لہٰذا آپ ملاحظہ کريں گے کہ ان چند دہائيوں ميں خود آزادي نسواں کے نام پر مغرب ميں کئي قسم کي برائيوں، فحاشي و عرياني اور بے حيائي نے جنم ليا اور يہ سب برائياں بتدريج رواج پيدا کرتي گئيں کہ جن سے خود مغربي مفکرين بھي حيران و پريشان ہيں۔ آج مغربي ممالک کے سنجيدہ، مصلح،خردمند اور سينے ميں دل و تڑپ رکھنے والے افراد اِس جنم لينے والي موجودہ صورتحال سے حيران و پريشان اور ناراض ہيں ليکن وہ اِس سيلاب کا راستہ روکنے سے قاصر ہيں ۔ انہوں نے خواتين کي خدمت کرنے کے نام پر اُن کي زندگي پر ايک بہت کاري ضرب لگائي ہے، آخر کيوں؟ صرف اِس لئے کہ مرد و عورت کے درميان تعلقات ميں اس لا اُبالي پن، برائيوں اور فحاشي و عرياني کو فروغ دينے اور ہر قسم کي قيد وشرط سے دور مرد وخواتين کي آزادي اور طرز معاشرت نے گھرانے کي بنيادوں کو تباہ و برباد کرديا ہے۔ وہ مرد جو معاشرے ميں آزادانہ طور پر اپني شہوت کي تشنگي کو بجھا سکے اور وہ عورت جو سماج ميں بغير کسي مشکل اور اعتراض کے مردوں سے مختلف قسم کے روابط برقرار کرسکے، گھر کي چارديواري ميں يہ مرد نہ ايک اچھا شوہر ثابت ہوگا اور نہ ہي يہ عورت ايک اچھي اور بہترين و وفادار بيوي بن سکے گي۔ يہي وجہ ہے کہ وہاں گھرانے کي بنياديں مکمل طور پر تباہ ہو گئيں ہيں۔

   موجودہ زمانے کي سب سے بڑي بلاوں ميں سے ايک بلا وآفت ’’ گھرانے کے مسائل‘‘ ہيں کہ جس نے مغربي ممالک کو اپنے پنجوں ميں جکڑا ہوا ہے اور انہيں ايک بدترين قسم کي نامطلوب حالت سے دُچار کرديا ہے۔ لہٰذا ايسے ماحول و معاشرے ميں اگر کوئي خاندان اور گھرانے کے بارے ميں نعرہ لگائے (اور اپني منصوبہ بندي کا اعلان کرے) تو وہ اہل مغرب خصوصاً مغربي خواتين کي نگاہوں ميں وہ ايک مطلوب ومحبوب شخص ہے، ليکن کيوں؟ اس لئے کہ يہ لوگ مغربي معاشرے ميں خاندان اور گھرانے کي بنيادوں کے تزلزل سے سخت نالاں اور پريشان ہيں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں کے عائلي نظام نے وہ چيز جو مرد و خواتين بالخصوص خواتين کيلئے امن و سکون کا ماحول فراہم کرتي ہے، اپنے ہاتھوں سے کھو دي ہے ۔ بہت سے گھرانے اور خاندان تباہ و برباد ہوگئے ہيں، بہت سي ايسي خواتين ہيں جو زندگي کے آخري لمحات تک تنہا زندگي بسر کرتي ہيں، بہت سے مرد ايسے ہيں جو اپني پسند کے مطابق خواتين حاصل نہيں کر پاتے اور بہت سي ايسي شادياں ہيں کہ جو اپنے نئے سفر کے ابتدائي چند سالوں ميں ہي جدائيوں اور طلاق کا شکار ہوجاتي ہيں۔

   ہمارے ملک ميں موجود خاندان اور گھرانے کي جڑيں اور محکم بنياديں، آج مغرب ميں بہت کم مشاہدہ کي جاتي ہيں۔ مغربي معاشرے ميں ايسے خاندان بہت کم ہيں کہ جہاں دادا، دادي، نانا، ناني، نواسے، نواسياں، پوتے، پوتياں، چچا زاد بہن بھائي اور خاندان کے ديگر افراد ايک دوسرے سے واقف ہوں، ايک دوسرے کو پہچانتے ہوں اور آپس ميں تعلقات رکھتے ہوں۔ وہاں ايسے خاندان بہت کمياب ہيں اور وہ ايسا معاشرہ ہے کہ جہاں مياں بيوي بھي ايک گھر کيلئے لازمي و ضروري پيار و محبت سے عاري ہيں۔ يہ وہ بلا ہے جو غلط کاموں کو انجام دينے اور ايک طرف سے افراط اور دوسري طرف سے اُس کے مقابل سراٹھانے والي تفريط کے نتيجے ميں اُس معاشرے پر مسلط ہوئي ہے اور اِس کا سب سے زيادہ نقصان مغربي خواتين کو ہوا ہے۔

                                  تحریر:   حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي حسيني خامنہ اي

                                  نام کتاب :  عورت ، گوہر ہستي

                                                  ترجمہ واضافات : سيد صادق رضا تقوي


متعلقہ تحریریں:

قرآن مجید اور خواتین