• صارفین کی تعداد :
  • 5659
  • 8/6/2008
  • تاريخ :

بن مانس کے وجود پر خطرے کے بادل

بن مانس

گرے شینکڈ ڈاؤک لنگور بے حد خطرے والی فہرست ميں شامل ہے پوری دنیا کے بن مانس سے متعلق کیے گئے ایک جائزے کے مطابق اس کی مختلف 48 فیصد قسمیں معدوم ہونے کے قریب ہیں۔

آئی یو سی این ریڈ لسٹ آف تھرٹینڈ سپیشیز کا کہنا ہے کہ بن مانس کو سب سے زيادہ خطرہ اپنے قدرتی ٹھکانوں کے خاتمے کے سبب ہے۔ ان کا قدرتی ٹھکانا جنگلات ہیں جن کو آگ لگا کر اور کاٹ کر ختم کیا جا رہا ہے۔

اس جائزے ميں ایشیاء کے 70 فیصد بن مانس کو ان وجود کے خطرے کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

آی یو سی این پرائمیٹ گروپ کے چیرمین اور کنزرویشن انٹرنیشنل کے صدر رسل ماٹرمئیر کا کہنا ہے کہ جائزے ميں بن مانس کا کھانے کے لیے شکار کیا جانا اور جنگلی جانوروں کی سمگلنگ بھی اس کی ایک وجہ ہے۔

اس جائزے میں سینکڑوں ماہرین نے 634 سپیشیز اور سب سپیشیز کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان میں 11 فیصد بے حد خطرے ، 22 فیصد خطرے اور مزید 15 فیصد کم خطرے کے زمرے میں ہیں۔

 

بن مانس

آئی یو سی این پروگرام کے نائب صدر جین کرسٹوفی وائی کا کہنا ہے اس سپیشیز کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ بن مانس گروپ میں رہتے ہیں ، بہت شور مچاتے ہیں اس لیے ان کا شکار کرنا بے حد آسان ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے ’ لنگور جیسے کئی ایشیائی بن مانس پانچ سے دس کلو وزن کے ہوتے ہیں اس لیے ان کا آسانی سے شکار کیاجاتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے جو جانور بڑے ہوتے ہیں اور آسانی سے پکڑ جاتے ہیں ان کا وجود بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے۔ ‘

وہیں افریقہ ميں تیرہ میں سے گیارہ لال رنگ والے بندروں کو بے حد خطرناک اور خطرناک زمرے میں رکھا گيا ہے۔

ماہرین کے خیال میں کئی نسلوں کا وجود پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ بووئیر کے ریڈ کولوبس کو پچھلے پچیس برس سے دیکھا نہیں گیا ہے جبکہ 1978 سے کسی بھی زندہ مس والڈرن ریڈ کولوبس کو نہيں دیکھا گیا ہے۔

 

پہاڑی گوریلے

پہاڑی گوریلے کو بے حد خطرے کی فہرست سے نکال کر خطرے کی فہرست ميں رکھ دیا ہے کیونکہ اس نسل کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ 

پرائمیٹ ریڈ لسٹ کے ماہرین نے پہاڑی گوریلے کو بے حد خطرے کی فہرست سے نکال کر خطرے کی فہرست ميں رکھ دیا ہے کیونکہ اس نسل کی آبادی میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔

ان خراب حالات کے باوجود ریڈ لسٹ نے اس نسل کی تحفظات کے بعض نمونے بھی پیش کیے ہیں۔

برازیل کی گولڈن لائن ٹیمارنس اور بلیک لائن ٹیمارنس کی آبادی کو بے حد خطرے کی فہرست سے نکال کر صرف خطرے کی فہرست میں کر دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر وائي کا کہنا ہے کہ یہ برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا ’ لائن ٹیمرنس کا وجود تقریباً ختم ہو چکا تھا لیکن وہ چڑیا گھروں میں کافی مقبول تھے اس لیے وہاں ان کی کافی تعداد تھی۔ اس لیے پوری دنیا کے چڑيا گھروں نے فیصلہ کیا اور ایک ساتھ مل کر ان کی نسل کی افزائش کے لیے برازیل میں ایک پروگرام شروع کیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کی شروعات میں پروگرام کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور کیوں کہ وہ جنگلات کے عادی نہيں تھے اور جب انہیں جنگلات میں چھوڑا گیا تو وہ وہاں زندہ نہیں بچے لیکن بعد میں ریو ڈی جینرؤ اور ساؤ پولو میں ایک مخصوص علاقہ میں یہ تجربہ کیا گیا تو کامیابی حاصل ہوئی۔

                                                                                                                           www.bbc.co.uk